Thursday 23 July 2015



Searched by
MOHAMMED OBAIDULLAH ALVI
Journalist, Anthropologist, Theologist & Blogger

حضرات شیخینؓ اور خانوادۂ علیؓ کے درمیان قرابتیں
مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی
حق جل مجدہ نے اس انسان کو اپنی تمام مخلوقات میں سب سے افضل قراردے کر، اس کو اپنی خلافت ونمائندگی کاتاج اور اعزازعطافرمایاتھا، پھر ان انسانوں میں سے دو برگزیدہ ترین جماعتوں کو اپنے خاص الخاص فضل وکرم سے نواز کر ایسا غیر معمولی مرتبہ بخشا جو ان کے علاوہ اس پوری کائنات میں کسی اور کامقدر اور نصیب نہیں ہوا، یہ حضرات انبیاء علیہم السلام اور حضرات صحابہ کرامؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے۔
مقام صحابہ کرامؓ
 حضرات صحابہؓ کی جلالت شان ، عظمت واحترام، جامع کمالات انسانی اورپیکرانسانیت ہونے کے علاوہ، ان کے شرف وسعادت کے لئے یہی بہت ہے کہ ان کو اوران کی مقدس جماعت کے ہرایک فرد کو اپنی حیات کا کچھ حصہ، کچھ دن، یا چندلمحات ،فخرکائنات ، سید موجودات حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور زیارت وصحبت کے میسرآئے، اسی کمال اور اختصاص کی وجہ سے، قرآن کریم میں بھی کئی موقعوں پر حضرات صحابہؓؓ کی بلندشان، عالی رتبہ ،رحمت وکرم کی بارشوں ،رضوان ومغفرت کی بشارت کے علاوہ اور بھی مختلف پہلوؤں سے تذکرہ فرمایا گیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے:
"مُحَمَّدٌرَّسُولُ اللہ وَالَّذِیْنَ مَعَہ اَشِدَّائُ عَلی الکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ تَرٰہُمْ رُکّعاً سُجّداً یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللہ وَرِضْوَاناً سِیْمَاہُم فِی وُجُوہِہِمْ مِن اَثَرِ السُّجُودِ ذٰلِکَ مَثَلُہُم فِی التَّوْرَاۃِ، وَمَثَلُہُم فِی الإنْجِیْلِ، کَزَرعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہُ فَاٰزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوی عَلٰی سُوقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الکُفَّارَ وَعَدَاللہ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَغْفِرَۃً وَّ اَجْراً عَظِیْمًا (سورۃ الفتح، آیت:۲۹)
محمد خدا کے پیغمبر ہیں اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحمدل (اے دیکھنے والے)توان کو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے )جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور خدا کا فضل اوراس کی خوشنودی طلب کررہے ہیں(کثرتِ)سجود کے اثرسے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں، ان کے یہی اوصاف تورات میں(مرقوم) ہیں اوریہی اوصاف انجیل میں ہیں(وہ) گویا ایک کھیتی ہے جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اورپھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اورلگی کھیتی والوں کو خوش کرنے ؛تاکہ کافروں کو جلائے، جولوگ ان میں سے ایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اوراجر عظیم کا وعدہ کیاہے۔ (ترجمہ:مولانا فتح محمد صاحب جالندھریؒ)
حضرات صحابہؓ کے تذکرے وتحسین پر مشتمل آیات کریمہ کو پڑھئے، تو معلوم ہوتاہے کہ حضرت خاتم الانبیاء علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم کے خاص رفقائے کرامؓ آپؐ کی بابرکت صحبتوں سے فیضیاب ومفتخر ہونے والے حضرات کا انتخاب بھی نظام قضاء وقدرت نے اسی وقت فرمالیاتھاجب حضرت محمدبن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)کے آخری رسول اوراللہ کے کلام کے اول مخاطب ومورد ہونے کا فیصلہ فرمایاتھا؛یہی وجہ ہے کہ قدیم آسمانی کتابوں میں جہاں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک اور بشارات شریفہ آئی ہیں، وہیں حضرات صحابہ کرامؓ کے احوال وصفات اوربعض کا گویا تعارف بھی درج ہے، ان بشارتوں کی احوال صحابہؓ سے مطابقت، بے شمار افراد کے قافلۂ اسلام میں داخل ہونے کا ذریعہ بنی ہے۔
عظمتِ صحابہ کرامؓ
یہی دائمی و  ابدی حقیقت ہے جس کو حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے نہایت دلنشیں اسلوب اورخوبصورت الفاظ میں یوں بیان فرمایا:
"إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ (مسند احمد،مسند عبداللہ بن مسعود،۳۴۱۸)
اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں پر نظرفرمائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو تما م دلوں میں اعلی ترین پایا، اس لئے اس کو اپنے لئے منتخب فرمایا اور اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔(حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انتخاب کے بعد) باقی مخلوق کے دلوں پر نظر فرمائی، تو حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں کو تمام مخلوقات میں سب سے بہترپایا، توان کو اپنے نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کا مشیر اور مددگار بنادیا، جواس کے دین کے لئے جدوجہد اورکوشش فرماتے رہے۔
کسی صحابی کی شان میں لب کشائی
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
  من سب اصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس أجمعین"
(طبرانی،بزار،مجمع الزوائد)
جس نے میرے کسی صحابی کو کچھ نازیبا کہا، اس پر اللہ کی اور فرشتوں کی اورتمام انسانوں کی لعنت ہو۔
صحابہؓؓ پر لعن طعن کرنے والوں کے متعلق امت کا اجتماعی موقف اورعقیدہ:
اس ارشاد عالی اور دیگر بہت سی احادیث شریفہ کی وجہ سے اہل سنت والجماعت کا مسلمہ اور اجتماعی عقیدہ یہ ہے کہ :
الصحابۃ کلہم عدول۔
تمام صحابہ کرامؓ نہایت سچے اوربرحق ہیں۔
اسی پس منظر میں علامہ جلال الدین دوانی نے شرح عقائد نسفی میں لکھاہے کہ:
" ثم فی مناقب کل من أبی بکر وعمر وعثمان وعلی والحس والحسین، وغیرہم من اکابر الصحابۃ، أحادیث صحیحۃ، وماوقع بینہم من المنازعات والمحاربات فلہاتاویلات، فسبہم والطعن فیہم، ان کان مما یخالف الادلۃ القطعیۃ فکفر "۔
( شرح العقائد النسفیۃ۔ ص:۱۱۶(مطبع یوسفی۔ لکھنؤ:بلاسنہ)
پھر اکابر صحابہ ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور حسن حسین رضی اللہ عنہم وغیرہ میں سے ہرایک کے مناقب کے متعلق صحیح احادیث موجود ہیں اور ان حضراتؓ کے آپس میں جو اختلافات اور لڑائیاں ہوئیں، تو ان کی مختلف وجوہات اور تاویلات ہیں،اس لئے ان حضرات(اوراسی طرح کسی اور صحابی کو بھی)برا بھلا کہنا، جو ادلۂ قطعیہ کے خلاف ہو،کفر  ہے۔
یعنی جو شخص بھی اس قدسی صفات، مقدس جماعت یا اس کے کسی بھی فرد اور رکن کے خلاف دل میں یازبان پر کچھ بات رکھے اور حضرت رسول اللہ  کے کسی معتمد وہم مجلس سے بدگمانی کرے اورالعیاذ باللہ !اس سے بڑھ کر  ان میں سے کسی پر بھی کوئی الزام لگائے، ان کے خلاف زبان کھولے اوراپنی زبان کو سب وشتم سے ناپاک وآلودہ کرے، وہ امت کے اجتماعی فیصلہ کے مطابق بلاشک وشبہ دائرۂ اسلام سے خارج اور جماعت مسلمین سے بے تعلق ہے، علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں، فیصلہ کن غیر مبہم الفاظ میں لکھاہے کہ:
"فمن نسبہ او واحدا من الصحابۃ الی کذب ،فہو خارج عن الشریعۃ، مبطل للقران، طاعن علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔ومتی الحق واحدا منہم تکذیباً فقد سُبَّ، لانہ لا عار ولا عیب بعد الکفر باللہ، اعظمُ من الکذب۔ وقد لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سب اصحابہ، فالمکذب لاصغرہم( ولا صغیرفیہم) داخلٌ فی لعنۃ اللہ، شہد بہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "۔
( الجامع لاحکام القرآن۔ سورۃ الفتح۔ص:۲۹۸ ج:۱۶(دارالکتب العربی ، للطباعۃ والنشر:قاہرہ۔ ۱۳۸۷ھ))
جس کسی نے حضرات صحابہؓؓ میں سے کسی ایک کے خلاف بھی زبان کھولی اوران پر کذب بیانی کا الزام لگایا، وہ دین وشریعت سے بے تعلق ہے، قرآن مجید کو معاذ اللہ باطل کرنے والا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کرنے والا ہے اور جب اس نے حضرات صحابہؓ ؓ میں سے کسی ایک کا دامن بھی کذب سے وابستہ کیا، تو گویا اس نے گالی دی، کیونکہ کفر کے بعد ، جھوٹ کے الزام سے بڑھ کر،کوئی عیب اور شرم دلانے کی بات نہیں ہے اوربلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے، جو کسی صحابی کو نازیبا بات کہے، اس لئے ان میں سے چھوٹے سے چھوٹے صحابی(اوردرحقیقت ان میں کوئی بھی چھوٹا نہیں ہے) کی طرف کذب اور غلط بیانی منسوب کرنے والا، اللہ کی لعنت میں داخل ہے، اس کی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی ہے۔
اورحضرت عبداللہ بن عباس ؓفرماتے ہیں:
"لاتسبوا أصحاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فلمقام أحدہم ساعۃ، یعنی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم، خیر من عمل أحدکم أربعین سنۃ" ۔
رواہ ابن بطہ ۔شرح عقیدۃ الطحاوی۔ تحقیق: علامہ احمد محمدشاکر۔ ص:۴۱۷،(مکتبۃ الریاض الحدیثۃ۔ ریاض ۔  بلاسنہ)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ  کو برابھلامت کہو،کیونکہ ان کی زندگی کا حضرت رسول اللہ  کی خدمت میں گذارا ہوا ایک لمحہ تمہاری چالیس سال کی عبادت سے زیادہ بہتر ہے۔
اورحضرت عبداللہ بن عمر ؓکا ارشاد ہے کہ صحابہؓ  کی خدمت نبوی میں ایک ساعت، تمہاری پوری زندگی سے بہتر ہے۔
"لاتسبوا أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فلمقام أحدہم ساعۃ خیرمن عمل أحدکم عمرہ"۔
(رواہ ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ:رقم الحدیث:۳۳۰۸۲،۱۷/۳۰۷،تحقیق شیخ محمدعوامہ(طباعت کراچی:۱۴۲۸ھ)
چندگم کردہ راہ  افرد
 مگر یہ کیسی بدنصیبی، کس قدر، بلکہ آخری درجہ کی بے توفیقی اورمحرومی ہے کہ ایسی ایسی واضح ہدایات واحادیث سے واقفیت کے باوجود،کوئی بھی شخص خصوصاً ایسے افراد جو محبت اہل بیتؓ اورخانوادہ حسنین کو اپنا مقصد زندگی کہتے ہوں،جانتے بوجھتے قدسیوں کی اس جماعت، یا اس کے کسی ایک فرد کی نسبت بھی دل میں کچھ بات رکھے، یا خدانخواستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک صحبت کے کسی بھی حاضر باش اور معتمد کے متعلق نازیبالب کشائی کرے اوران پر زبانی طعن دراز کرے؛کیونکہ خدانہ کرے ،اگر ان میں سے کسی کے متعلق بھی کچھ کہا جاتاہے تو ان کے حوالہ سے دین وشریعت کے جو احکامات معلوم ومدون ہیں ان کی کیا حقیقت باقی رہ جائے گی،ان حضرات کو مطعون ومجروح کرنا درحقیقت دین وشریعت کے ان اصولوں وہدایات کو مجروح کرنا ہے جو ان کے حوالے سے منقول اور امت کے زیر عمل ہیں، اسی کاتذکرہ کرتے ہوئے حضرت مجددالف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ نے ایک مکتوب میں رقم فرمایاہے:
"قرآن وشریعت واصحاب تبلیغ نمودہ اند، اگر ایشاں مطعون باشند، طعن در قرآن ودرشریعت لازم می آید، قرآن جمع حضرت عثمان است علیہ الرضوان، اگر عثمانؓ مطعون است، قرآن ہم مطعون است"۔
( مکتوب پنجاہ وچہارم دفتر اول، جلددوم ص:۲۸ مرتبہ مولانا نوراحمدامرتسری(مکتبۃ القدس کوئٹہ)
قرآن وشریعت صحابہؓ نے پہنچایا ہے، اگر وہ قابل اعتراض ہیں تو قرآن مجید اورشریعت میں اعتراض اور شبہ ضروری ہوگا، قرآن حضرت عثمانؓ کا جمع کیا ہوا ہے، اگر حضرت عثمانؓ پر شبہ اور اعتراض ہے، تو قرآن پر بھی شبہ اور اعتراض ہے۔
اسی بات اور فیصلہ کوجلیل القدر مفسر قرآن، علامہ قرطبی نے(ہارون رشید کی مجلس کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے) عمربن حبیبؒ کے الفاظ میں بالکل صاف کردیا ہے، فرماتے ہیں:
 "إذا کان الصحابۃ کذابین، فالشریعۃ باطلۃ، والفرائض والأحکام فی الصیام والصلوٰۃ، والطلاق والنکاح والحدود، کلہا مردودۃ، غیر مقبولۃ"۔
(الجامع لاحکام القرآن ص:۲۹۹،ج:۱۶(دارالکتب العربی، للطباعۃ والنشر۔ قاہرہ ۱۳۷۸ھ)
اگر خدانہ کرے، صحابہ کرامؓ ناقابل اعتبار ہیں ،تو شریعت باطل ہے،تمام فرائض اور احکامات الہٰیہ، روزہ، نماز، طلاق، نکاح اور حدود وغیرہ سب ناقابل اعتباراورناقابل قبول ہیں۔
مگرعبرت کی جاہے،زوال کہاں تک
لیکن یہ نہایت سخت فیصلے بھی ایسے گم کردہ راہ لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہوئے، وہ ان سب تعلیمات وہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے، خصوصاً حضرت ابوبکر صدیق اورسیدناعمر فاروق نیز حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم پر اعتراضات کرتے ہیں اوراس میں یہاں تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ حضرت شاہ عبدالعزیزؒ  کی صراحت کے مطابق:
"لعن عمرؓ را ترجیح دہند، برذکرالٰہی وتلاوت قرآن مجید"۔
(تحفہ اثنا عشریہ فارسی۔ ص:۵۶۲۔(مطبع ثمرہند،لکھنؤ:۱۲۹۵ھ)
ترجمہ:حضرت عمرؓ کو برابھلا کہنے کو(اس درجہ ضروری اوراہم سمجھتے ہیں کہ)اس کو ذکرالٰہی اورتلاوت قرآن مجید پر ترجیح دیتے ہیں۔
یہی نہیں؛بلکہ اس سے بھی تجاوز اور جسارت کرتے ہیں کہ:
"لعن کبراء صحابہؓ وازواج مطہراتؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم را، عبادت عظمیٰ دانند"۔
(حوالہ سابق)
بڑے جلیل القدر صحابہؓ اوررسول اللہ  کی ازواج مطہراتؓ پر طعن کرنا اہم ترین عبادت سمجھتے ہیں۔
اب کیا ہونا چاہئے؟
یہ نظریہ رکھنے والے لوگ، چا رپانچ کے علاوہ جملہ صحابہ کرامؓ کو بالکل نظرانداز ؛بلکہ مسترد کرتے ہیں، ان کا احترام تو کیا کرتے، ان کی جلالتِ شان اورعظمت وکرامت کی کیا تحسین کرتے، وہ تو(توبہ ، توبہ استغفراللہ ، استغفراللہ!)ان سب کے ایمان پر شک ظاہر کرتے ہیں، لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایسے سخت الزامات وافترات اور قابل عبور اختلافات کی وسیع ترین خلیج کے ہوتے ہوئے،جس میں ایک نسبتاً بہت چھوٹا سا گروہ یا جماعت ، امت مسلمہ کے اجتماعی عقیدہ اورجملہ احادیث وروایات اورمعتبرسے معتبر تاریخی حوالوں کو مسترد کررہی ہے اوراکثریت کے بڑے بڑے دینی مذہبی پیشواؤں کی، نہایت شدید اور مسلسل دل آزاری کرنے اکثریت کے دلوں کو ہر وقت زخم پہنچانے اورہردن نئے انداز سے نادک فگنی کرنے کو اپنا کمال اورعبادت سمجھتی ہے۔
 اوراس صورت میں جب اہل سنت کے دلائل کو(بقول خود)محبین اہل بیتؓ رد کرتے ہیں او راہل تشیع کے دلائل کو اہل سنت ناقابل اعتبار گردانتے ہیں، تواب وہ کون سا تیسرا اورایسا معتمد ذریعہ ہے جس کی صداقت اہل تشیع بھی تسلیم کرنے پر مجبورہوں اوراہل سنت کو بھی اس سے اختلاف نہ ہو اور اس سے یہ بھی بے غبار سامنے آجائے کہ سچائی دراصل کہاں ہے، کیا واقعتاً حضرات اہل بیتؓ رضی اللہ عنہم اورحضرات شیخینؓ کے درمیان ایسے ہی سخت اختلافات تھے، جن کی گرہ کشائی ناممکن تھی یا دونوں بڑوں، ان کی اولاد، خاندان اور نسلوں کے درمیان محبت ومودت، کرم فرمائی واحسان مندی کا ایسا دراز سلسلہ تھا، جس کی کڑیاں ایک دوسرے سےجُڑتی چلی جاتی تھیں اورکہا جاسکتاتھا کہ ان میں قربت وعنایات کی ایک دائمی لہر ، ایسا دریائے  زمزم بہہ رہاتھا جس کے کناروں پر، اعتبار واعتماد،راحت و دل آویزی اور قرابت وقربت کے چمنستاں آباد تھے، تاریخ اور علم الانساب کے دفتر کہہ رہے ہیں کہ ایسا ہی تھا، دونوں خاندانوں میں عہد نبوی میں جو یگانگت پاسداری اورقرابت وقربت کی ڈوربندھی تھی، وہ نسلوں تک اسی طرح بندھی رہی، اس میں اسی طرح گل بوٹے نکلتے رہے اوراسی طرح اس پر نئی نئی بہار آتی رہی او رنئے نئے پھول نمودار ہوتے رہے۔
ان تمام رشتوں کی تفصیلات سے پہلے اس موضوع کو مکمل کرنے کے لئے، مختصراً یہ جان لینا بھی نہایت مفید اور چشم کشا ہوگا کہ حضرت صدیق اکبر ؓاور حضرت فاروق اعظم ؓ کے متعلق  دامادِ رسول حضرت علی حیدرؓ، ان کے صاحبزادگانِ سراپا منزلت اوران کے محترم اخلاف، خصوصاً حضرت محمد باقرؒ اور حضرت جعفر صادقؒ کیا فرماتے تھے، ان کے دلوں میں حضرات شیخینؓ کی محبت کس درجہ رچی بسی ہوئی تھی اوریہ سب شیخینؓ کی محبت اوراتباع کو کیا بلند مقام دیتے تھے۔
قابل توجہ یہ ہے کہ آئندہ سطور میں درج اس طرح کی تمام روایتیں شیعوں کے مستندترین مآخذ میں شامل ہیں اوران کے نہایت معتمدلوگوں سے حوالے منقول ہیں، لہٰذا ان کی صحت میں شیعہ صاحبان کو بھی کلام نہیں مگر ۔۔
اس کے بعد، آل ابی طالب کے خاندانوں کی،شیخینؓ وغیرہمؓ سے قریب ترین رشتہ داریوں نسبتوں اور دا ئمی ربط وضبط کی تفصیلات ،معتبر شیعہ کے حوالہ سے نقل کی جارہی ہیں، جوان لوگوں پر بطور خاص حجت ہیں، جو ان کتابوں اور ان کے مصنفین کو اپنا مسلمہ عالم او رپیشوا مانتے ہیں، واللہ یہدی من یشآء الی صراط مستقیم۔
کسی پر بھی لعنت کرنے کی حضرات حسنینؓ کی زبان سے صاف ممانعت
 حالانکہ خود اس فرقہ کی اہم ترین مذہبی کتابوں میں اس لعن طعن کی ممانعت ہے، اس سے منع کیا گیا ہے اوربرملا کہہ دیا گیا ہیکہ:
"ان اللعنۃ اذخرجت من فی صاحبہا ترددت، فإن وجدت مساغا، وإلا رجعت علی صاحبہا"۔
 (اصول کافی شیخ یعقوب کلینی، ص:۵۴۷، ۵۴۸(منشی نول کشور لکھنؤ:۱۳۰۲ھ)
"جب کسی کے منہ سے(کسی کے لئے لعنت) نکلتی ہے تووہ ٹھہر جاتی ہے، جس پر لعنت کی گئی ہے ،اگر وہ اس کا مستحق ہو تو اس پر جاتی ہے، ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے"۔
یہ روایت اہل تشیع اورخانوادۂ اہل بیتؓ کو ماننے کادعوی کرنے والوں سے، بہت کچھ کہہ رہی ہے اورسوال کرتی ہے کہ جب تم ہمارے کہنے والوں کی یہ ہدایات نہیں مانتے، پھرماننے اور محبت کادعویٰ کیسا۔۔؟ اس روایت کا بہت ہی اہم پہلو یہ ہے کہ یہ روایت بھی اوراس موضوع کی ایک اورروایت، خودحضرات حسنینؓ اورامام محمد باقرؒ سے منقول ہیں، کیاان کے ایسے صاف اقوال کو نظر انداز کرکے، بلکہ ان کی کھلی مخالفت کرکے،خود کو ان حضرات کا ماننے والا محبت کرنے والا کہاجاسکتا ہے۔۔۔اور کیا ان کی اعلی   درجہ کی اخلاقی تعلیمات کو جان بوجھ کر چھوڑنے اورنظرانداز کرنے سے راہ ہدایت حاصل ہوسکتی ہے؟
 اوراس کے ساتھ ہی اس کا جائزہ لینا بھی نہایت ضروری ہے کہ وہ تمام اکابر جن کو اہل تشیع اپنے سب سے بڑے مقتداؤں  میں جانتے ہیں ، وہ اپنی زبان سے حضرات شیخین ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کی نسبت کیا فرماتے تھے اور ان کے یہ ارشادات گرامی وہ نہیں ہیں جو  علمائے اہل سنت کی کتابوں میں درج ہیں، بلکہ یہ خوداہل تشیع کے ممتازومعتبرترین مآخذ میں درج ہیں۔
یہاں معتبر شیعہ مآخذ میں موجود متعدد روایتوں میں سے حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی عظمت شان کے اعتراف، ان کے کامل اتباع، اُن کے حق پر ہونے کی تصدیق اوران سے اپنی دلی محبت کے اظہار میں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت محمد باقرؒ اور حضرت جعفر صادقؒ نیز(شیعہ صاحبان کے عقیدہ کے مطابق، امام غائب)حسن عسکری کی صرف ایک ایک روایت یہاں نقل کی جارہی ہے، جس سے یہ معلوم ہوجاتاہے کہ ان حضرات کے، شیخین حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے اختلافات کی اطلاعات غلط ہیں، جو ان حضرات کے مشترکہ بدخواہوں نے گھڑی اور پھیلائی ہیں اوران میں سے اکثر روایتیں اوراطلاعات بہت بعد کی ایجاداوربلاشبہ غلط ہیں۔
الف: نہج البلاغۃ میں(جو حضرت علی کرم اللہ  وجہہ کے اقوال وافادات وکلمات کا معروف ومعتبر مجموعہ ہے) حضرت علیؓ کا ایک قول نقل کیا گیاہے،فرماتے ہیں:
"لِلّٰہ دَرُّ فلانٍ فلقد: قوم الأود،وداوی العمد،  وأقام السنۃ، وخلّف البدعۃ،  ذہب نقي الثوب،  قلیل العیب، أصاب خیرہا، وسبق شرّہا، أدّی إلی اللہ طاعتہ، واتّقاہ بحقہ، رحل وترکہم فی طرق متشعّبۃ لا یہتدی فیہ الضال، ویستیقن المہتدی (انتہیٰ)"
(اظہارالحق ج:۳/ص:۹۳۸تحقیق محمد احمد، محمد عبدالقادر ملکاوی،(ریاض:۱۴۱۰ھ))
فلاں شخص کتنا اچھا اور بہترین ہے،کیونکہ اس نے (۱)کجی کوسیدھا کیا(۲)سنگین بیماری کا علاج کیا(۳)سنت کو قائم اورجاری کیا(۴)بدعت کی مخالفت کی(۵)دنیا سے پاکدامن گیا(۶)بہت کم عیب والا تھا (۷)بہترین افعال کرتارہا (۸)برے افعال سے محترز رہا (۹)اللہ کی فرمانبرداری کرتارہا (۱۰) اللہ سے اس کے حقوق میں سب سے زیادہ ڈرنے والا تھا،خود تو چلا گیا  لیکن لوگوں کو منتشر اورپراگندہ چھوڑ گیا اس میں گمراہ کیلئے کوئی ہدایت حاصل کرنے کی صورت اورہدایت یافتہ کے لئے یقین کی شکل نہیں۔
(بائبل سے قرآن تک /ج:۳ ص:۲۶۔ترجمہ، مولانا اکبر علی صاحب، شرح وتحقیق مولانا مفتی تقی عثمانی(کراچی:۱۳۹۱ھ)
اس روایت میں جس عالی مرتبہ شخص کی، بے پناہ تعریف وتوصیف کی گئی ہے، وہ کون تھے؟ نہج البلاغہ کے اکثر شارحین، خصوصاً علامہ بحرانی نے(م۶۸۱۔۱۲۸۲م)لکھاہے کہ اس سے حضرت ابوبکر صدیقؓ مراد ہیں، نہج البلاغۃ کے بعض اور شارحین(جو سب شیعہ صاحبان ہیں)کہتے ہیں کہ اس میں حضرت عمربن الخطابؓ کی جانب اشارہ ہے،دونوں میں سے جو بھی اس سے مراد ہوں، یہ معلوم ہوجاتاہے کہ یہ حضرا تؓ کیسے زبردست اورعالی اوصاف کے حامل تھے اور یہ بھی واضح ہوجاتاہے کہ ان اوصاف عالیہ اور کمالات وھبیہ میں جن کا سیدناعلی مرتضیٰؓ نے تذکرہ فرمایاہے، دونوں ہی حضراتؓ اعلی سے اعلیٰ درجہ پر تھے۔
ب:محمد باقرؒ کا ارشاد : کشف الغمۃ تصنیف شیخ علی بن عیسی الاربلی م۶۹۲ھ۱۲۹۳ء  میں ہے کہ حضرت ابوجعفر محمد الباقرؒؒ سے تلوار پر نقش ونگار بنانے کے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا:ہاں جائز ہے! اس لئے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکی تلوار پر نقش ونگار بنے ہوئے تھے، سائل نے کہا: آپ بھی ابوبکر صدیقؓ کہتے ہیں،یہ سن کر حضرت باقرؒ اپنی نشست سے کود کر اٹھے اور فرمایا:نعم الصدیق، نعم الصدیق، نعم الصدیق، ہاں صدیق تھے، ہاں صدیق تھے، ہاں صدیق تھے اورجوان کو صدیق نہ کہے اللہ تعالیٰ اس کی کسی بھی بات کو دنیا اور آخرت میں سچا اور سیدھا نہ کرے۔
ج: حضرت باقرؒ کا ایک اور ارشاد: الفصول المہمہ فی اصول الائمہ(تالیف شیخ محد بن حسین الحرالعاملی)میں  حضرت صدیق اکبرؓ سے متعلق حضرت ابوجعفرؒ(محمدالباقر)کا ایک قول اور منقول ہے، لکھاہے کہ: ایک جماعت، چندآدمی ، خلفائے ثلاثہ، سیدنا صدیق اکبر، عمرفاروق، اورعثمان غنی رضی اللہ عنہم کی عیب جوئی اور نکتہ چینی میں مصروف تھے، ان کی بات سن کر حضرت باقرؒ نے، قرآن کریم کی آیت: السابقون الاولون اورمہاجرین کے متعلق متعدد آیات کی تلاوت کی اور فرمایا: کہ تم ان میں سے نہیں ہو، جن کی قرآن مجید میں تعریف فرمائی گئی ہے، یعنی حضرات خلفائے ثلاثہ اس کا مصداق ہیں اوران میں شامل ہیں،مگر اس کے متعلق تبصرے اوربری رائے  رکھنے والے، اس جماعت سے خارج ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے رضوان ومغفرت کی بشارت عطافرمائی ہے۔
د: حضرت جعفرصادق کا فرمان:امام محمد بن حسن شیبانی، ابوحفصہ سے نقل کرتے ہیں کہ:
میں نے محمد بن علیؒ(حضرت باقرؒ) اورجعفربن محمدؒ(حضرت جعفرصادقؒ)سے حضرت ابوبکرؓوعمرؓ کی بابت پوچھا، تو انہوں نے کہا: وہ دونوں امام تھے، عادل تھے، ہم ان سے محبت رکھتے ہیں اوران کے دشمن سے بیزار ہیں۔
اس کے بعد جعفر بن محمؒد میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے سالم! کیاکوئی شخص اپنے نانا کو برا کہے گا، ابوبکر صدیقؓ میرے ناناہیں، مجھے میرے جد، محمدکی شفاعت نصیب نہ ہو، اگر میں ان سے محبت نہ رکھتاہوں۔
اورابوجعفرؒ(حضرت باقرؒ)سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا، جس نے حضرات ابوبکرؓ وعمرؓ کی فضیلت کو نہ جانا وہ سنت رسول اللہ سے جاہل رہا،جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ حضرت ابوبکر ؓوحضرت عمرؓ کی نسبت کیا کہتے ہیں؟
فرمایا: میں ان سے محبت رکھتاہوں اوران کے لئے دعائے مغفرت کرتاہوں اور میں نے اپنے گھر میں سب کو دیکھا کہ ان سے محبت کرتے تھے۔
 نیزان سے پوچھاگیا کہ جو لوگ حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کو برا کہتے ہیں(وہ کیسے ہیں)؟ فرمایا: وہ بے دین ہیں۔
(یہ اوراس کے علاوہ اس مفہوم کی متعدد معتبر روایتیں، حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ازالۃ الخفاء میں نقل فرمائی ہیں، ملاحظہ ہو:ازالۃ الخفاء مع ترجمہ مولانا عبدالشکورکاکوری لکھنوی:۱/۲۲۴۔(عمدۃ المطابع، لکھنؤ:طبع اول) اس طباعت کے حاشیہ پرازالۃ الخفاء کا صحیح فارسی متن بھی مولانا عبدالشکور لکھنوی کی تصحیح سے  درج ہے، صرف ترجمہ کے لئے ملاحظہ ہو: ترجمہ ازالۃ الخفاء:۴۰۵/۴، نورمحمداصح المطابع کراچی:بلاسنہ)
ہ: امام غائب کی نصیحت:شیعہ صاحبان کے گیارہویں امام، حسن عسکری(بن علی بن محمد م۲۶۰ھ/۸۷۴ء )سے منسوب تفسیر قرآن (کشف الحجب) کے حوالہ سے، جملہ صحابہ کرامؓ کا احترام ضروری ہونے اوران کو برا کہنے والوں کے لئے ایک بہت واضح اور گویا قولِ ناطق نقل کیا گیا ہے ، جو ایسے لوگوں کے لئے آئینہ اور سامان عبرت ہے، جو حضرات صحابہؓؓ کے لئے نازیبا کلمات زبانوں سے نکالتے ہیں۔ فرمایا:
"ان رجلا ممن یبغض آل محمدواصحابہ اوواحدا منہم، یعذبہ اللہ عذاباً، لوقسم علی مثل خلق اللہ لاہلکہم اجمین"
"جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد یا اصحاب، یاان میں سے کسی ایک سے بھی بغض اور دشمنی رکھے گا، اللہ تعالی اس کو ایسا شدید عذاب دے گا، کہ اگر اس عذاب کو ساری مخلوق پر تقسیم کیا جائے ،تو سب کو ہلاک کردے"۔
(یہ تمام روایتیں اقتباسات اور حوالے، مناظراسلام، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے اپنے معرکہ آرا تصنیف اظہارالحق میں نقل فرمائے ہیں،یہ کتاب ڈیڑھ سو سال سے مسلسل چھپ رہی ہے، اس کاکئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکاہے، مگر ان حوالوں کی صداقت اور استناد کو کوئی بھی چیلنج نہیں کرسکا، نیزاس قسم کی متعدد روایتیں، خصوصاً آخر میں درج حضرت حسن عسکری کا قول، محسن الملک سیدمہدی علی خاں نے بھی آیات بینات میں ذکر کیا ہے۔ ( ملاحظہ ہو:آیات بینات جلداول(یونائٹیڈ پریس لکھنؤ: ۱۳۵۱ھ ) یہی طباعت راقم کے سامنے ہے)
 حضرت علی کرم اللہ وجہہ اوراس خانوادہ کے، جلیل القدر اکابر اوررہنماؤں کے، مذکورہ بالا معتبرارشادات وکلمات سے عیاں ہوجاتاہے کہ حضرت علیؓ ،ان کی اولاد اور گھرانہ اسی طریقہ پر کاربند اورعامل رہے اوراسی طریقہ کو صحیح قابل عمل اور اسوۂ نبوی کے مطابق سمجھتے تھے، جو حضرت ابوبکروعمرؓ کا طریقہ اورعمل تھا۔
حضرت علیؓ اور حضرات حسنین ؓ کو،حضرت شیخینؓ کا معاذاللہ مخالف اوربعد میں ایک مستقل گروہ کا قائد وسرداراور ایک نئے مذہبی طریقہ کا قائد وامام قراردیا جاتاہے، اور کہا جاتا ہے کہ ان کااورخلفائے ثلاثہ کا راستہ الگ الگ تھا، اور اسی کو بنیاد بناکر اوربھی بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں، مگر یہ روایات صاف صاف کہہ رہی ہیں کہ خانوادۂ حسنینؓ اور ان کے اسلاف واخلاف، حضرات شیخین ابوبکروعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے طریقہ اور روایات واعمال کی پابندی کو لازم جانتے تھے، ان کے ہی طریقہ پرچلتے تھے، ان کے معمولات اوراسوہ کو اپنی خوش بختی کا سامان اور ذریعۂ خیر گردانتے تھے ،نیزاپنے گھروں اورنسلوں میں ان کی بابرکت یاد کا مسلسل باقی اور تازہ رکھنا ضروری سمجھتے تھے اور اپنی اولادوں کے ان جیسے نام رکھنا، اپنے لئے باعث رحمت وسعادت اور نیک فال شمار کرتے تھے۔
خاندان حسنینؓ کے جلیل القدر اصحاب حضرات شیخینؓ سے اپنی خاندانی نسبت اورآبائی رشتہ پر فخرکرتے تھے اوران کی اولاد میں رشتہ داریوں کو، ان کے داماد بننے بنانے کو، اپنے اوراپنے گھرانوں کے لئے سامان خیروبرکت قراردیتے تھے۔
ایسے ایک دو واقعات یا رشتے نہیں ،بلکہ ایسے ناموں کے اعادہ وتکرار اورایسے رشتوں کے تواترواہتمام کی ایک لمبی تاریخ ہے، جس سے یہ بات کھل کر آئینہ ہوکر سامنے آتی ہے، اس میں کسی بھی طرح کاکوئی شک وشبہ  اور تاریخ وثبوت کے لئے لحاظ سے ادنیٰ تامل باقی نہیں رہتا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ، ان کاخانوادہ گرامی اوران کے تمام قابل ذکر اخلاف واولاد، اسی عقیدہ کومانتے تھے ، اسی طریقہ اور دین کے انہی تمام اصولوں اورنظام کو تسلیم فرماتے اوران کے مطابق عمل رکھتے تھے ،جو حضرات شیخینؓ کا طریقہ ،عقیدہ اور عمل تھا، یقیناًحضرت علیؓ اوران کا گھرانہ اور ان کی بعد کی نسلیں اس سے علیحدہ ہونے کو برا؛ بلکہ ناجائز اورگناہ سمجھتی تھیں۔
حضرت شیخینؓ کی محبت ونسبت ، خانوادۂ علی کرم اللہ وجہہ کے لئے، دین صحیح سے وابستگی کی ایک علامت تھی اور وہ ان سے متواتر وابستگی کوحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاحق ادا کرنے کے برابر جانتے تھے، اسی لئے اس تعلق کو سرمایۂ حیات اور مقصد زندگی سمجھتے تھے۔
مشاجرات کی روایات حقیقت یا افسانہ ؟
اس وقت جب حضرات صحابہؓؓ کی عظمت پرپھر سوالات اٹھائے جارہے ہیں، ان کی شان میں گستاخیوں کی بات کی جارہی ہے، اوران سے محفوظ ، قرآن مجید، سنت واحادیث نبویؐ اورشریعت کی بنیادوں پر نئے تیشے نئے حربے آزمائے جارہے ہیں، ضرورت ہے کہ اس بات کو اپنے ذہن ونظراور مطالعہ میں ایک بار پھر تازہ کرلیا جائے کہ حقیقت دین کو صحابہ کرامؓ کے جس کارواں اورقائدین نے واضح کیا، وہ پہلے بھی ایک ہی جماعت تھے، ایک ہی کہکشاں کے آفتاب وماہتاب تھے اورایک ہی منبع سے منور ہوکر، ضوفشانی فرماتے رہے،بعد میں بھی ہمیشہ ایک ہی رہے، ان میں نہ اس وقت اختلاف تھا، جب وہ دامنِ رسالت کے زیرسایہ زندگی گزاررہے تھے، نہ اُس وقت تھا جب ان میں سے ثانی اثنین یایارغار کو مسند خلافت سپرد کی گئی ، نہ اُس وقت تھا جب"لوکان بعدی نبی لکان عمر" کے مصداق، اپنے اقتداءر اورتدبروانتظام سے ملت اسلام کو، نئی فتوحات ، نئی بلندیوں،نئی ترقیات اورنئے حصوں تک اسلام پہنچاکر ،سرخ رو اور کامیاب فرمارہے تھے؛تاہم بعد کے حالات میں بعض صحابہؓ ؓکے درمیان بعض غلط فہمیاں پیش آئیں اوراختلاف ومشاجرات ہوئے ؛لیکن ان کے دل ہمیشہ صاف رہے، انہوں نے ان اختلافات ونزاعات کو، اپنے دامن سے بھی جھٹک دیاتھا، اوراپنی اولادوں کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی۔
اس لئے اگر(خاکم بہ دہن)ان سے کہیں غلطی ہوئی بھی ہو، تو وہ خدانہ کرے، ان کے باطن کی خرابی اورقلبی اندرو نی اختلاف کا اثر نہیں،بلکہ صرف اختلاف رائے کی بات تھی، شرح عقائد نسفی کا اقتباس اوپر گذر گیا ہے، اس میں فرمایاگیاہے:
"وماوقع بینہم من المنازعات والمحاربات فلہ محامل وتاویلات"۔
ان حضراتؓ کے درمیان جو بھی اختلاف ومشاجرات ہوئے، انہوں نے ان کو قطعاً بھلا دیا ،فراموش کردیاتھا، ان کی بعد کی زندگی، ان کے باہمی تعلقات ، خاندانی رشتے، عظمت واحترام اورروابط اسی طرح باقی رہے، ان حضرات کے باہمی تنازعات واختلاف کی جوروایت و اطلاعات اورتاریخی معلومات ہیں، ان کے ساتھ ایک بڑی خطرناک سازش ہوئی ہے، چونکہ اس طرح اکثر روایتوں کے نقل کرنے والے اوران روایتوں کی مدد سے اول اول تاریخ مرتب کرنے والے ،اسی خیال وفکر کے اشخاص تھے جواختلاف وعدم توازن کے شکار تھے ، اس لئے ان کو پڑھتے ہوئے بہت احتیاط کی اور بہت غور وفکر کی ضرورت ہے کہ:ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔
خانوادۂ علی ؓ میں حضرت شیخینؓ کے ناموں کا معمول اور اہتمام
اوریہ بھی ایک عالم آشکارا اوربے غبار حقیقت ہے کہ اگر اللہ نہ کرے، ان حضرات کے درمیان ، بعد میں یاشروع میں، زندگی کے کسی دور میں بھی، بداعتمادی ،اختلاف اور بے تعلقی کی ایسی کوئی بات ہوتی جس کاتذکرہ کیاجاتاہے اوران کے شفاف دامن کو آلودہ کرنے کی جسارت کی جاتی ہے ،تو کیوں یہ حضرات اپنے خاندانی رشتے اس شدت وقوت سے باقی رکھتے، کیوں اپنی اولادوں کے نام ابوبکر، عمر عثمان، عائشہ رکھتے، کیونکر ان کی یادوں کو ہر وقت اپنے سامنے تازہ رکھتے اور کس وجہ سے اپنے اخلاف کو، ان حضرات کے خاندانوں سے رشتہ ناطہ جوڑنے کی تاکید واہتمام فرماتے اوراس میں کوشش کا مزاج بناتے؟
ذراغورتوفرمائیے!حضرت علیؓ کے صاحبزادوں کی قریبی اولاد میں سے چار کے نام ابوبکر، پانچ کے عمر اور پانچ ہی کے عائشہ ہیں،بھلاکون اپنے دشمنوں کے نام پر اپنی اولادوں کے نام رکھتاہے، کون ان لوگوں سے جن سے پشتینی خاندانی عداوتیں ہوں ، اپنی بیٹیاں دیناوران گھروں میں اپنے لڑکوں کی شادی کرنا پسندیا گوارہ کرتاہے، ان حضرات کے باہمی رشتوں اورقریب ترین گہرے تعلقات کی جومصدقہ تفصیلات اور معتبرشجرے، آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں، وہ ڈنکے کی چوٹ پر، اس فاسد خیال اور بے اصل پروپیگنڈے کی تردید کرتے ہیں، اورکہہ رہے ہیں کہ:
اے کاش حقیقت کی کچھ ان میں جھلک ہوتی           
 واعظ تری تقریر افسانے ہی افسانے
اس مطالعہ سے چندنہایت حیرت انگیز چونکادینے والی معلومات سامنے آتی ہیں، جو اپنے آپ میں بڑی دریافت اورعجوبہ کی حیثیت رکھتی ہیں:
۱۔       حضرات حسنینؓ کی جونسلیں معروف وموجود ہیں، وہ تمام تر وہ ہیں جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی پوتیوں، نواسیوں اوراسی طرح حضرت عمر فاروقؓ کی اولاد سے ہوئی ہیں۔
۲۔      حضرت امام جعفر صادقؒ اس پر فخرکرتے تھے کہ میرامادری ، پدری نسبت(والدہ اور دادی)دونوں کا سلسلہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے جڑا ہوا ہے۔
۳۔      حضرات شیخینؓ کے علاوہ، حضرات حسنینؓ کی تمام زوجات غیرعرب، عجمی خاندانوں سے تھیں۔
۴۔      شیعہ صاحبان کی روایات میں، ان کے اماموں کی مادری نسبت(حضرت جعفر صادقؒ کے بعد)اورثبوت میں سخت اختلاف ہے،دقیق علمی مباحث،متکلمانہ مناظراتی بحثوں سے قطع نظر،یہاں درج یہ اطلاعات اورشجرے ہی اس کی مکمل تردید کررہے ہیں کہ ان خاندانوں میں آپس میں سخت اختلافات تھے اوردونوں کی مذہبی فکر اورراستے الگ الگ تھے ، اس تاریخی مطالعہ کی ایک ایک کڑی اورہراک شاخ کے آپس کے معتبر قریبی رابطے اور رشتہ داریاں، بہت صاف صاف کہہ رہی ہیں کہ ان دونوں سلسلوں، خاندانوں اوراہل نسبت میں آپس کے اختلاف، بداعتمادی اورقطع تعلقات کی روایات وخبریں غلط اور بالکل غلط ہے۔
اس نظریہ کا ناقابل تردید ثبوت ان خاندانوں کی باہمی رشتہ داریاں ہیں، ان سے ہمارے اس نظریہ بلکہ عقیدہ کی توثیق ہورہی ہے، جوشیعہ علماء مورخین اورماہر ین علم الانساب نے اپنی کتابوں میں تحریر کئے ہیں اوریہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو آج نئی دریافت ہوئی ہو بلکہ قدیم سے قدیم ترین مورخین اورعلمائے انساب نے ان سب کاتذکرہ کیا ہے اوران کی صداقت کو بلاخوف تردید ظاہربھی کیا ہے،آئندہ صفحات میں جو دومختصر تالیفات کے ترجمے پیش کئے جارہے ہیں وہ اسی سلسلہ کی ایک نئی کڑی اورتازہ پیش رفت ہیں۔
اس موضوع کی تصانیف کا یہ سلسلہ کوئی نیانہیں ہے بلکہ اس موضوع پر ، قدیم سے قدیم مورخین اور ماہرین انساب نے روشنی ڈالی ہے اوربعض نے ایسی تمام معلومات اور رشتوں کو یک جا مرتب کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔
قدیم تصانیف میں اس موضوع کی ایک معروف اورعمدہ یادگار:حافظ ابوسعیداسماعیل بن علی ابن زنجویہ الازدی(م:۴۴۵ھ) کی الموافقۃ بین اہل البیت والصحابۃ(ومارواہ کل فریق فی حق الاخر)ہے، جس کی شہرۂ آفاق عالم اورمفسرقرآن علامہ جار اللہ زمخشریؒ نے تلخیص کی تھی، اصل کتاب اوراس کی تلخیص دونوں تحقیق وتعلیق کے ساتھ شائع ہوچکی ہیں۔
علامہ زمخشریؒ کے خلاصہ کا ایک قلمی نسخہ کی مددسے مولانا احتشام الحسن کاندھلوی(وفات:۱۹۷۱ء )نے"خلفائے راشدین اور اہل بیتؓ کرامؓ کے باہمی تعلقات"کے نام سے اردو میں ترجمہ بھی کیا تھا، جو ندوۃ المصنفین دہلی سے شائع ہوچکاہے، بعد میں پاکستان سے بھی چھپا تھا، ایک اوراشاعت زیر طبع ہے۔
آئندہ صفحات میں اس موضوع کی دو مختصر تالیفات کااردو ترجمہ پیش کیا جارہاہے، جواسی حقیقت کوروز روشن کی طرح آشکارا کر رہی ہیں، ان تصانیف کی اکثر اطلاعات شیعوں کے مستند مراجع ومآخذ سے لی گئی ہیں، سنی مراجع صرف قندمکرراورتوثیق مزید کے لئے درج کئے گئے ہیں، امیدہے کہ ان کا مطالعہ اس سلسلہ کی متعدد غلط فہمیوں، غلط بیانیوں کا پردہ چاک کردے گا، اس کے مطالعہ سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ کئی مرتبہ مسلسل جھوٹ اور غلط گوئی سچائیوں کوکس حدتک گردآلود اوردھندلی کردیتی ہے، بہرحال آگے بڑھئے اور ان معلومات سے فائدہ اٹھائیے۔
وہ تالیفات جن کا ترجمہ آئندہ صفحات میں نذرقارئین ہے، یہ ہیں:
۱۔       آل البیت والصحابہؓ: محبت وقرابۃ ۔پیش نظراشاعت جمعیۃ الآل والصحب، بحرین اورسعودی عرب کے اشتراک سے بڑی پیمائش کے نہایت خوبصورت ، عمدہ نفیس کاغذ پر کئی رنگوں میں، نہایت دیدہ زیب چھپی ہے، بیس صفحات پر مشتمل ہے،یہ طباعت۱۴۳۰ھ ۲۰۰۹ء کی ہے مگراس پر مرتب کانام درج ہیں۔
۲۔      الاسماء والمصاہرات بین اہل البیت والصحابہؓ رضوان اللہ علیہم
پہلی کتاب کاترجمہ ہمارے ادارہ، حضرت مفتی الٰہی بخش اکیڈمی کاندھلہ مظفرنگر کے علمی رفیق ،مولانا ہدایت اللہ صاحب آسامی فاضل دارالعلوم دیوبند نے کیا ہے، دوسری کا مولانا عامل حسین سرور چمپارنی نے کیا ہے، یہ بھی دارالعلوم کے فاضل ہیں اوراس وقت مدرسہ اسلامیہ عیدگاہ کاندھلہ میں استاذ ہیں، ترجمہ مجھے خود کرناتھا، لیکن بعض مصروفیات اورمضمون کے تقاضے کی وجہ سے ان دونوں صاحبان کوزحمت دی گئی، راقم نے دونوں پر نظر ڈال لی ہےاور ان میں بعض ترمیمات بھی کی ہیں مگریہ لفظی ترجمہ نہیں ہے، تاہم کوشش یہ کی گئی ہے کہ اصل تحریرات کا مفہوم اور پیغام ضائع نہ ہو،بہرحال جیساکچھ ہے نذرقارئین ہے۔
چونکہ دونوں تالیفات کا موضوع ایک ہے اور مراجع ومآخذ بھی اکثر مشترک ہیں، اس لئے بعض مندرجات واطلاعات میں کسی قدر تکرار غیرمتوقع نہیں، مگرا س میں شبہ نہیں کہ ان تالیفات سے اس موضوع کی نئی اہم ترین اورمستند معلومات سامنے آئیں ہیں، جن سے امید ہے کہ فائدہ اٹھایاجائے گا، وماتوفیقی الاباللہ علیہ توکلت والیہ انیب۔
تمہید
ساری تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے فرمایاکہ:تم سب مل کر اللہ کی رسی کو تھام لو اور آپس میں اختلاف نہ کرو: "واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولاتفرقوا" اوردرودوسلام نازل ہو، اس باکمال مربیّ اور صاحب علم وعمل رہنما پر جس کے ذریعہ اللہ  نے لوگوں کو ہدایت دی اور درندہ صفت متفرق دلوں کو باہم ایسا جوڑد یا کہ وہ اللہ کے انعامات کی بدولت اس کے راستے اور دین پر آگئے اور جم گئے، آپس میں محبت کرنے والے بھائی بھائی بن گئے ، صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔
امابعد! تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پیشوایان ملت اہل بیتؓ اور صحابہ کرامؓ اور برگزیدہ ہستیوں کی معتبر وراثت اورصحیح سوانح حیات اور تاریخ کے بیش بہا ذخیرے پر توجہ دیں، کیونکہ وہی درحقیقت مقتدیٰ ہیں ، جن کی اقتداءء کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاہے: "والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار"۔
(التوبہ:۱۰۰)۔
لہٰذا ان حضرات کی اقتداء واتباع ہمہ گیر کامیابی کی ضمانت ہے، اسی اہم اصول کے تحت جمعیۃ الآل والاصحاب، بحرین نے اس کی کوشش کی اورمفید کام کو انجام دیا، جس سے قارئین کے سامنے یہ ظاہر اورواضح ہوجاتا ہے کہ مدرسہ نبویؐ کے پہلے فارغین کے اندر کس قدرہمدردی ، رشتہ داری اور محبت والفت تھی کہ واقعی وہ قول باری تعالیٰ:"محمدرسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم"  کا عملی نمونہ اور ترجمان تھے۔
ان صفحات سے جہاں اہل بیتؓ اورصحابہؓ کا حقیقی تعلق نمایاں ہوتاہے، وہیں منصف مزاج، نیک نیت لوگوں کے سامنے ان لوگوں کے دعوؤں کی حقیقت بھی کھل جاتی ہے، جو اسلامی شفاف مآخذ کو داغدار بنانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، ان کے اغراض فاسدہ کو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں، بہرصورت آپ اس مختصرسی کوشش کو قبول فرمائیں، بڑی ناسپاسی ہوگی اگر ہم اس عجالہ نافعہ کی تیاری میں شرکت کرنے والے اصحاب کا شکریہ نہ اداکریں، اوراللہ ہی سے قبولیت اور اخلاص کی دعا کرتے ہیں،انہ سمیع مجیب ۔
اہل بیتؓ اور ان کے چچازاد خاندان کے درمیان ازدواجی رشتے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل مبارک دیگر لوگوں سے بالکل جدا گانہ تھی، ان کے درمیان رشتہ داری اورمیل جو ل رہتاتھا، کیونکہ اہل بیتؓ اور ان کے چچاؤں کی اولاد کے درمیان نسل درنسل،مرحلہ بمرحلہ ازدواجی رشتے کثرت سے پائے جاتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین صاحبزادیاں اسی قریشی گھرآئیں تھیں۔
 آٹھ رشتے آل عثمان کے ساتھ ہوئے، چھ آل مروان بن الحکم کے ساتھ اور چار آل ابی سفیانؓ کے ساتھ، جن میں شریف ترین رشتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیانؓ کے ساتھ ہے، جو سلسلۂ نسب میں دیگر ازواج مطہراتؓ  کی بہ نسبت آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب تھیں۔
انہیں رشتوں میں سے تیرہ رشتے، آل علیؓ بن ابی طالب کے ساتھ تھے، جن میں سے اکثر، واقعات صفین، جمل اورکربلاء کے بعد ہی وجود میں آئے ہیں۔
چنانچہ چچازاد اولاد نے نسب پر اکتفاء نہیں کیابلکہ آپس میں نکاح اورلڑکیوں کے رشتوں کے ذریعہ سے باہمی تعلقات کو زیادہ مضبوط اور طاقتور بنایا، تاکہ نسب شریف سے نسبت میں کبھی انقطاع نہ ہو، چاہے اورتعلقات میں کبھی کچھ کشیدگی آجائے۔
خیر البشرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں
اللہ تبارک وتعالیٰ نے خاتم الانبیاء والمرسلین، حضرت محمد رسول اللہ کو چار ایسی بیٹیوں سے نوازاتھا کہ جو پاکدامنی، نیکوکاری، تقویٰ وپرہیزگاری میں آخری بلندمرتبہ کو پہنچی ہوئیں اوراپنی مثال آپ ہی تھیں، وہ اسوۂ حسنہ اوربلندنمونہ تھیں ہرایک ایسی خاتون کے لئے ،جو زندگی میں فلاح وبہود اورکامیابی وکامرانی کی خواہاں ہو۔
 ان میں سے سب سے بڑی صاحبزادی، حضرت زینبؓ تھیں، جن کی پیدائش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے چند سال پہلے ہوئی تھی اوروفات اپنے والد محترم رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمنور میں ہوئی۔
ان میں سے سب سے چھوٹی صاحبزادی جنت کی عورتوں کی سردار اور دوفلک بوس پہاڑوں، مہکتے پھولوں اورنادر ترین فرزندوں حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کی والدہ محترمہ تھیں، جو سراپا زہدوتقویٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر فاطمۂ زہراءؓ ہیں، جو باقی صاحبزادیوں سے افضل اور عبادت وزہد کے پیکر تمام خواتین سے بہتر ہیں، جن کے خاوند خلیفۂ راشد ، مجاہدو عابد، عالم وزاہد امیرالمؤمنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، حضرت فاطمہؓ ہی اہل بیتؓ میں  سب سے پہلے اپنے والد محترم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملیں تھیں۔
نیزآپ کی صاحبزادیوں میں ، تقویٰ وپاکدامنی کا پیکر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا تھیں، ان کی ولادت ہجرت سے سات سال پہلے ہوئی، دونوں ہجرتوں میں شامل اورسبقت حاصل کرنے والی تھیں،یہ تیسرے خلیفۂ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں۔
پھر ام کلثوم رضی اللہ عنہا ہیں، جن کی ولادت حضرت رقیہ کے بعد ہوئی ، پھرحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح حضرت رقیہ کی وفات کے بعد حضرت عثمان غنیؓ سے ہی کردیاتھا، تو وہ بہترین بلکہ اعلیٰ ترین، بڑوں کی بہترین نمونہ بنیں، انہیں دونوں صاحبزادیوں سے نکاح کی وجہ سے اوراس شان امتیازی کو نمایاں کرنے کے لئے درباررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ذی النورین کا لقب عطاہوا، رضی اللہ عنہم اجمعین۔
قرآنی آیات سے مدلل درج بالاشجرہ، ان باطل افواہوں کی تردید کے لئے ایک قطعی اور نہایت قوی دلیل ہے کہ جس میں یہ کہاجاتاہے کہ صرف حضرت فاطمہؓ ہی رسول اکرم کی صاحبزادی تھیں، تینوں اور بیٹیاں گودلی ہوئی(لے پالک)تھیں، حالانکہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں:"وبناتک"اس میں جمع کا صیغہ استعمال فرمایاگیاہے ،جو کم سے کم تین کے مجموعہ یا افرادپر بولاجاتاہے، صحیح احادیث کی صراحت اور اجماع امت بھی اسی پر ہے، یہ چاروں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں ہیں، اس کے ثبوت کے لئے ہم نے ستائیس معتبرکتابوں کے حوالے یہاں نقل کردئیے ہیں:
(۱)السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ۲/۹        (۲) تاریخ الاسلام للذہبی ۱/۱۲
(۳) تاریخ دمشق لابن عساکر۲/۱۲۵  (۴) البدایہ والنہایۃ لابن کثیر ۲/۲۹۴
(۵) الاصابۃ لان حجر ترجمۃ ۸۱/۱۱۱    (۶) الاستیعاب لابن عبدالبر ۱/۷۱
(۷) اسد الغابۃ لابن الأثیر ۱/۱۰       (۸) الخصال للصدوق ص:۴۰۴
(۹) تہذیب الاحکام للطوسی۲/۳۳۳   (۱۰) شرح اصول الکافی للمازندرانی ۷/۱۴۴
(۱۱) تاج الموالید للطبرسی ص:۹        (۱۲) تاج موالید الائمۃ لابن خشاب ص:۷
(۱۳) مناقب آل ابی طالب ابن شہر آشوب ۲/۹۰
(۱۴) المسائل السرویۃ للمفید ص:۹۴ 
(۱۵) مستدرکات علم الرجال للنمازی الشاہرودی ترجمۃ رقم ۹۲۲۷ و۱۵۸۶۰ و۹۵۹۰و۱۸۰۶۸چ
(۱۶) المقنعۃ للمفید ص:۳۳۲                      (۱۷) المبسوط للطوسی ۴/۱۵۹
(۱۸) مصباح المجتہد للطوسی ص:۸۰ و۶۲۲        
(۱۹) تذکرۃ الفقہاء للحلی ۲/۶۰۴
(۲۰)قرب الإسناد للحمیری القمی ص:۹  
(۲۱) معجم رجال الحدیث للخوئی ۱۲/۱۳۹ و۲۴/۲۰۸ و۱۹/۳۰۵ وترجمۃ رقم۱۵۶۲۶۔
(۲۲) وسائل الشیعۃ للحرالعاملی ۳/۱۳۹۔(۲۳) الاستبصارللطوسی ۴۸۵
(۲۴) الحدائق الناضرۃ للبحرانی ۴/۸۵ (۲۵) منتہی المطلب للحلی ۱/۴۴۶
(۲۶) قاموس الرجال للتستری ترجمۃ رقم ۱۱۹و۳۴۳و۸و۱۳۶
(۲۷) بحارالانوار للمجلسی ۴۲/۹۵
حضرت علیؓ کے ساتھ حضرت فاطمہ زہراؓ کا مبارک نکاح
۱۔ وقت اور جگہ: مدینہ منورہ میں، غزوۂ بدر سے لوٹنے کے بعد سن دوہجری میں۔
۲۔ خِطبہ(پیغام): حضرت صدیق اکبرؓ،حضرت فاروق اعظمؓ اور سعد بن معاذؓ تینوں نے حضرت علیؓ کے لئے پیغام نکاح دیا۔
( کشف الغمۃ۔ للاربلی،جلداول ص:۳۴۳)
۳۔ مہر : ایک حطمی زرہ تھی جس کو حضرت علیؓ نے حضرت عثمان ؓکو چارسودرہم میں فروخت کیا، جب دراہم پر قبضہ کرلیا، تو عثمانؓ نے یہ کہہ کر زرہ واپس کردی ،کہ یہ تمہارے لئے ہدیہ ہے علیؓ نے زرہ اور دراہم کو لے لیا۔
(بحارالانوار، مجلسی ج:۴۳ ص:۱۳۰۔الطبقات لابن سعد۔جلد:۸ ص:۲۲۹)
۴۔  شب زفاف میں آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم سب کام سے پہلے مجھ سے ملو، پھر آپ نے پانی منگایا، اوروضوفرمایا پھر ان دونوں پرپانی ڈالتے ہوئے یہ دعا پڑھی: اللہم بارک فیہما وبارک علیہما وبارک لہما فی نسلمہا۔
(الاصابہ ص:۳۷۸/ج:۴)
۵۔  ولیمہ: حضرت سعدؓ نےدنبہ ذبح کرکے ولیمہ کیا ، بعض انصارؓ چند صاع مکئی لے آئے۔
(فضائل الصحابۃ للامام احمدبن حنبل، رقم الحدیث:۱۱۷۸)
۶۔  گھر :ایک صحابی حضرت حارثہ بن النعمان انصاریؓ نے ایک گھر بطور ہدیہ پیش کیا ۔
( بحارالانوار،مجلسی۔ جلد:۱۹، ص:۱۱۳)
۷۔  جہیز: حضرت صدیق اکبرؓ، بلالؓ اور سلمان فارسیؓ نے آپ کے ارشاد کے مطابق جہیز کا سامان خریدا جو ایک بستر، چمڑے کا ٹکڑا، پانی کا مشکیزہ، گھڑے اور خیبر کی بنی ہوئی چادر  اور چکی تھی۔
۸۔ گواہ: آپ  نے گواہی کے لئے حضرت صدیق اکبرؓ، عمرفاروقؓ،عثمان غنیؓ ،حضرت طلحہؓ، زبیرؓ اورانصارؓ کی ایک جماعت کو بلایا؛تاکہ وہ حضرت علیؓ وفاطمہؓ کی شادی کے گواہ بنیں۔
(کشف الغمہ العلی الاربلی ۱/۳۷۸، بحارالانوار،مجلسی۔ جلد:۴۳، ص:۱۲۰)
حضرت علی ؓ کی حضرت فاطمہؓ سے شادی مبارک
خاوند: حضرت علیؓ بن ابی طالب تھے، جونہایت بہادر اورشجاع تھے، خدااورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے، خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے تھے۔
اہلیہ: سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی، خواتین اہل جنت کی سردار، دونوں سبطین( حضرت حسن وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما)کی ماں ، حضرت فاطمہ الزہراءؓ، جو صحابہ کرامؓ حضرت علی  ؓ کو اس مبارک شادی کے لئے تیار کرتے تھے، اس کا شوق اوررغبت دلاتے تھے، وہ حضرت صدیق اکبراور فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما تھے، سعدبن معاذؓ ان میں شامل تھے،(جن کی  وفات پر عرش اعظم تھراگیاتھا)یہ شادی یوم الفرقان، غزوۂ بدر کے بعد ہوئی تھی، حضرت عثمان غنیؓ نے حضرت علیؓ کو سامان مہردیا۔
حضرات انصارؓ نے ولیمہ کے خرچ اٹھائے، بکری ذبح کی،نوشاہ ودلہن کی خاطر وتواضع کی، مہاجرینؓ وانصارؓ ونبی رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم سب نہایت خوش وخرم تھے، حضرت حارثہ بن نعمان انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خوشی کو دوبالا کرنے کے لئے ایک گھر پیش کیاتھا، دوسرے صحابہؓ خصوصاً حضرت صدیق اکبرؓ نے دونوں کے لئے سامان جہیز خریدا،رضی اللہ عنہم اجمعین۔
قارئین کرام! یہ مبارک شادی اہل بیتؓ اور صحابہ کرامؓ کے درمیان ان گہرے تعلقات کو نمایاں کرتی ہے، جن کا خداتعالیٰ نے "رحماء بینہم" کے الفاظ سے تذکرہ فرمایاہے، کیا اتنی ہمدردی اور گہری محبت اوررشتہ داری کے باوصف اس درخشاں حقیقت کو داغدار بناناممکن ہے، جس کی جڑیں اہل بیتؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرامؓ کے درمیان اس قدر طاقتور، زندہ اورتابندہ ہوں۔
حضرت علیؓ اور آل علیؓ کے پسندیدہ نام
حضرت علیؓ نے اپنے بیٹوں کے نام ایسے ناموں سے رکھے ہیں، جواس وقت نہ صرف زیادہ مشہور ومعروف تھے، بلکہ حضرت علیؓ کے دل میں ان ناموں والے حضرات کی ایک خاصی وقعت تھی، حضرت علیؓ نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا جواب بالکل آسان ہے، یہ خالص گہری محبت ، بے غرض تعلقات ، بڑی وفاداری اورعظیم بھائی چارہ کا اثر ہے۔
چنانچہ حضرات حسنینؓ یا علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد میں سے، ابوبکر، عمر اور عثمان سب فرزندان رحمہم اللہ کربلامیں شریک ہوتے ہیں اورجام شہادت نوش فرماتے ہیں، واضح رہے کہ درج بالا ناموں سے ہماری مراد خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم نہیں ہیں، بلکہ ایک خلیفہ رابع امیرالمؤمنین حضرت علیؓ کا بیٹاہے اور ایک ابوبکرؒ،حسنؓ بن علی بن ابی طالب کابیٹا بھی ہے اورعمرین یعنی عمرؒبن حسن اورعمرؒبن حسین ہیں اورعثمانؒ بن علی بن ابی طالب ہیں، ایک اور بھی عمرؒبن علی بن ابی طالب تھے جس نے کربلا میں شریک ہوکر شہادت پائی، ان کے والد حضرت علیؓ اپنی اولاد کی بڑی ممکنہ تعداد کانام انہی برگزیدہ ہستیوں(حضرت ابوبکر وعمرؓ وغیرہ)کے نام سے رکھنا پسند کرتے تھے۔
منبت طیب کے اس شجرۂ طیبہ کی جو نسل(اس وقت تک)موجود ہیں، وہ عمر اورعثمان کی نسل ہے، جو حضرت حسینؓ بن علی بن ابی طالب کے صاحبزادے ہیں۔
خاص اور قابل توجہ یہ ہے کہ حضرت علیؓ کی اولاد کے دل میں اپنی نانیوں سے بے پناہ محبت ہے؛ یہاں تک کہ حضرت علیؓ کی اولاد کے قریبی سلسلہ میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کانام پانچ مرتبہ رکھاگیا،چنانچہ اسی شجرہ میں دیکھئے: ۱۔ عائشہ بنت جعفرصادقؒ،۲۔عائشہ بنت موسیٰ کاظم،۳۔عائشہ بنت علی رضا،۴۔عائشہ بنت علی جواد، ۵۔عائشہ بنت جعفر بن موسیٰ، کیا اس سے ان حضرات کی باہمی محبت بالکل عیاں اورآشکارا نہیں ہے؟ کیا کسی کو سہوونسیان سے بھی اس کا انکار ممکن ہے، اس لئے اب کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتاکہ اہل بیتؓ اورصحابہ کرامؓ کے درمیان عداوت واختلاف ودشمنی تھی،(نعوذباللہ منہ ) ان کے درمیان جو کچھ تھا وہ باہمی محبت ، ہمدردی، رشتہ داری اوربھائی چارہ تھا اور کچھ بھی نہیں تھا۔
آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآل صدیق اکبرؓ کے درمیان رشتے
رسالت وصدیقیت کے درمیان مناسبت اورآل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آل صدیقؓ سے ازدواجی رشتے۔۔اس میں تعجب کی بات اوراختلاف نہیں ہے، کیونکہ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے حبیب ومحبوب ،ایک دوسرے کے قریب اور مقرب تھے؛ چنانچہ نبی کریم اپنے وزیر خاص اوریارغار کی صاحبزادی حضرت عائشہؓ سے شادی فرمائی،یہ عائشہؓ بڑی باوفاتھیں، اپنے خاوند علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں ان کے جملہ حقوق کی پاسداری کرتی تھیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مبارک خاتو ن کے گود میں سررکھے ہوئے تھے۔
یہ مناسبت ان دونوں پاکیزہ گھرانوں میں مسلسل آگے بڑھتی رہی، حضرت صدیق اکبرؓ کی پوتی کانکاح حضرت حسنؓ اوربعض کے نزدیک حضرت حسینؓ سے ہواتھا۔
نسل حسینی میں سے موسیؒ الجون بن عبداللہ المحض بن الحسین المثنی کی شادی، ام سلمہؒ بنت محمدبن طلحہ بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر سے ہوئی ہے اوراسی نسل حسینی میں سے محمد الباقرؒؒ کی شادی ام فروہؒ بنت القاسم سے ہوئی ہے، تاکہ اس کو ایک عالی مرتبت بچے کی ماں بننے کا شرف حاصل ہو، جن کانام نامی جعفر صادقؒ ہے۔
ہاشمی خاندا ن کے اسحاقؒ بن عبداللہ کو ، صدیق اکبرؓ کی پوتیوں میں سے، کلثومؒ بنت اسماعیل نصیب ہوئی تھیں اوراسحاقؒ بن عبداللہ بن جعفر طیار ، ام حکیمؒ بنت القاسم بن محمدبن ابی بکر (ام فروہ کی بہن) کو اپنی زوجہ بناتے ہیں، جو جعفرصادقؒ کی خالہ بن جاتی ہیں۔
یہ بات بہت ہی اہم اورقابل توجہ ہے کہ ان میں سے اکثر رشتے صدیق اکبرؓ کی وفات کے بعد منعقد ہوئے ہیں، ان رشتوں میں شوہر سب ہاشمی ہیں اور بیٹیاں سب آل صدیق اکبرؓ سے ہیں،یہ بات بھی معلوم ہے کہ پیغام نکاح مردوں کی جانب ہوتاہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خاندان صدیق اکبرؓ میں ازدواجی رشتے قائم کرنے کا کس قدر جذبہ، ذوق وشوق اورباہم کس درجہ محبت والفت تھی۔
ان رشتوں کی تاریخ وتفصیل یہ بتاتی ہے کہ عموماً جمہورامت اورخصوصاً آل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپسی اختلاف ومشاجرات کونظر انداز کردیاتھا، چنانچہ یہ اکثر رشتے جنگ صفین، جمل اورکربلا وغیرہ واقعات کے بعد ہی قائم ہوئے ، جن سے اللہ کے قول: "الطیبات للطیبین والطیبون للطیبات" کی ایک اور صداقت نمایاں ہوجاتی ہے اورآل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآل صدیق اکبرؓ کے درمیان گہرا تعلق اورپرخلوص محبت بھی، روزروشن کی طرح چمکتی ہوئی نظر آتی ہے۔
حضرت جعفر صادقؒؓ کاقول:"میں دووطرح سے ابوبکر صدیقؓ کا بیٹاہوں"
"ولدنی ابوبکر مرتین" (میں دووجہ سے ابوبکر صدیق کا بیٹاہوں)یہ جعفرؒبن علی بن الحسین کا مقولہ ہے، جو انہوں نے اس توالدمبارک، نعمت الٰہی اورعطیۂ خداوندی سے فخرکرتے ہوئے فرمایاتھا۔
چنانچہ نواسۂ صادق، اپنے صدیق ناناپر فخروناز کرتاہے، جن سے وہ(نواسہ) اپنی ماں فروہ بنت القاسم بن محمد بن ابی بکرفقیہ مدینہ کی جانب سے ملتاہے، یہ ولادت کی پہلی وجہ ہوئی۔
نواسۂ صادق کی نانی، اسماء بنت عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق ہیں،یہ توالد کی دوسری وجہ ہوئی۔
متقی آدمی اہل تقوی وصلاح ہی سے فخرکرتاہے اورنیک شخص نیکوکار اور سعادت مند لوگوں ہی سے ناز کرسکتاہے،محمد الباقرؒ نے محبت ہی کی وجہ سے خانوادۂ صدیقؓ میں سے ام فروہؒ سے شادی کی، ان کی یہ شادی اپنے نانا کی وفات کے ستر سال بعد ہوئی ہے، اسی مبارک شادی کاثمرہ ایک کوہ علم وفقہ کی صورت میں ظاہر ونمودار ہوا، جس سے امام بخاری ومسلم روایت کرتے ہیں، جن کانام نامی جعفرصادق ہے،رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
وہ ایسا کیوں نہیں ہوگا، اس کی تربیت شہرنبویؐ میں ہوئی، جو علم وعلماء کا شہر، فقہ وفقہاء کا گہوارہ اورمفکرین وخردمندوں کی آماجگاہ ہے، ان روشن فقروں سے ہر صاحب بصیرت کے لئے عیاں ہے کہ جعفر صادقؒ اپنے نانا صدیق اکبرؓ پر ناز کرتے ہیں،(جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یارغار اورثانی اثنین یعنی دومیں سے دوسرے تھے)اور بالکل بجا ہے کہ وہ اس فلک بوس پہاڑوں اورمؤمن صادق پر نازکریں، جس کے متعلق صادق مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ اگر میں کسی کو "خلیل" بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا۔
کیا اتنی وضاحت کے بعد بھی کسی طوطا چشم کے لئے مناسب ہے کہ وہ اہل بیتؓؓ اور صحابہؓؓ کے درمیان کسی اختلاف کی بات کرے،رضی اللہ عنہم اجمعین۔
آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآل فاروقؓ کے درمیان عقدومصاہرات
کتنا اچھا ہے کہ نبی امین، مربی عظیم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاص معتمد، خلیفہ ثانی فاروق اعظم عمرؓ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنائیں اورکتنی دلچسپ بات ہے کہ فاروق اعظمؓ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ مصاہرت کے شرف سے سربلنداورمعززہوں۔
بلاشبہ خداتعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے ذریعہ اسلام کو قوت بخشی اورعمرؓ کی بدولت ہی مسلمانوں اور اسلام کی دعوت پر دہ کے پیچھے سے منظر عام پر آگئی تھی، اکثر اسلامی فتوحات عہد فاروقیؓ میں وجود میں آئیں، وہ بے شمار خوبیوں کے مالک ، عظیم امتیازات کے حامل، اورکارہائے نمایاں کے لئے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتے ہیں، حضرت رسول اللہ کو ان سے خاص مناسبت تھی، کیونکہ رسول اللہ  ان کے اخلاص ، راست بازی، والہانہ محبت ، اورنصرت دین کے جذبات کو بخوبی جانتے تھے۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ بنت عمرؓ سے نکاح فرمایا، تو آپ  خاوند حفصہؓ کانعم البدل ہوئے، جوغزوہ بدر میں شہیدہوگئے تھے: فنعم الراحل ونعم الرحیل۔
پھر فاروق اعظمؓ نے ام کلثومؓ بنت علی ؓو فاطمہ(رضی اللہ عنہما)سے نکاح کیا،یہ وہی ام کلثومؓ ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ:نماز فجر کے ساتھ میرایہ کیا ماجراہے؟ یعنی ان کے دومحبوب ترین آدمی نماز فجر کے وقت شہید ہوگئے، ایک خاوند دوسرے والد۔
پھر خداتعالی کا منشا یہ ہوتاہے کہ ان (ام کلثوم )کا بیٹا بھی بوقت فجر وفات پائے، اس مرتبہ وہ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ اپنے پروردگارسے جاملیں۔
مصاہرت مذکورہ کی تیسری کڑی، حضرت حسینؓ کے پوتے کے پوتے اورفاروق اعظمؓ کے پوتے کی پوتی کے درمیان ملتی ہے، یعنی حسینؒ بن علی بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالبؓ کا نکاح ، جویریہ بنت خالد بن ابی بکر بن عبداللہ بن عمربن الخطابؓ سے ہواہے، تاکہ محبت کی تجدید ہوجائے اوردیرینہ تعلقات زندہ وتابندہ وپائندہ ہوجائیں۔
ان پاکیزہ رشتوں اورتعلقات سے خداتعالیٰ کے ارشاد:"والطیبات للطیبین والطیبون للطیبات"کی سچائی بالکل واضح ہوجاتی ہے اورخانوادۂ نبوتؐ وخانوادۂ فاروقؓ کے درمیان گہراتعلق اورخالص محبت بھی نمایاں ہوجاتی ہے۔
زیدؓ بن عمربن الخطابؓ کاقول:"میں دوخلیفوں کا بیٹاہوں"
زید بن عمربن الخطاب فخر میں یہ فرماتے تھے :"میں دوخلیفہ کا بیٹاہوں" یعنی دوخلفاء راشد، دوباکمال ہستیوں ہم پیالۂ جام شہادت ،حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ ، کیونکہ زید کی والدہ، ام کلثومؓ بنت امام عادل، عابد زاہد حضرت علیؓ ہیں اوران کے والد امیرالمؤمنین، قاہرشیاطین ، دشمن مشرکین حضرت عمرؓبن الخطاب ہیں۔
حضرت عمر فاروق ؓنے حضرت علیؓ سے ان کی بیٹی ام کلثوم ؓکاپیغام دیا، تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں نے تواس کو اپنے بھتیجے جعفر کے لئے رکھ رکھاہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ان کانکاح مجھ سے ہی کردو، بخدا! میں اس کے لئے جتنا امیدوار ہوں  اتنا کوئی نہیں ہے، تو حضرت علی ؓ نے ان کانکاح کردیا، حضرت عمرؓ خندہ پیشانی کے ساتھ مسکراتے ہوئے شاداں وفرحاں ، صحابہؓؓ کے پاس پہنچے اورفرمایا: تم مجھے مبارکبادی نہیں دیتے ہو؟ وہ بولے کہ کس بات کی مبارک بادی، فرمایا کہ ام کلثومؓ بنت علی وفاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، چونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ :ہر نسب ورشتہ قیامت کے دن ختم ہوجائے گا، سوائے میرے نسب ورشتے کے، اس لئے میں نے چاہا کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان نسب اوررشتہ قائم ہوجائے۔
 (کماروی الحاکم بسندہ عن جعفرالصادق عن ابیہ الباقر رحمہما اللہ)
حضرت فاروق اعظمؓ کا مقصد حاصل ہوگیا اورامیدبرآئی ، تو صاحبزادہ کا بھی اپنے والد محترم اور نانادونوں خلیفۂ راشد پر ناز کرنا بجا ہوا، زیدؓ کاانتقال عنفوان شباب میں ہوا، اس کی وجہ وہ قضیہ تھا جوان کے چچازاد بھائیوں کے درمیان برپا ہواتھا، زیدؓ اس میں مصالحت کے لئے گئے تھے، اچانک ان کے سرپر غلطی سے ایک وار ہوا ، پھر فوراً ہی وہ اوران کی والدہ حضرت ام کلثومؓ، دونوں پہلوبہ پہلو اللہ کو پیار ہوگئے، ان کی نماز جنازہ ان کے بھائی عبداللہ بن عمرؓ نے پڑھائی، ان کے بعد ان کے دونوں ماموں حضرات حسنین ؓ کی بھی شہاد ت ہوئی، جس کی وجہ سے ہموم وغموم کی کالی گھٹائیں آسمان پر امنڈ کر آئیں اور پھیلتی چلی گئیں۔وکان امراللہ قدراً مقدورا۔
خانوادۂ نبوتؐ میں حضرت عثمانؓ کا مقام ومرتبہ
امیرالمؤمنین، خلیفہ ثالث، سابقین اولین کے ایک فرد، صاحب ہجرتین، عشرۂ مبشرہ کے ایک رکن، بیعت رضوان کا سبب، جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں کے صاحب دولت وثروت، حضرت عثمان بن عفان ؓ ہیں، جن کے فضائل بے شمار اور شمائل کی فہرست بڑی لمبی ہے، جن کا احاطہ کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔
حضرت عثمان غنیؓ کوخانوادۂ نبوت میں ایک عظیم مقام حاصل ہے، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیسرے دادا پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتے ہیں، سلسلۂ نسب اس طرح ہے:عثمانؓ بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف ۔۔نیزان کی والدہ اروی بنت کریز کی ماں بیضاء بنت عبدالمطلب ہیں،یعنی بیضاء ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدماجد، حضرت عبداللہ کی سگی بہن ہیں، یہ کوئی دوسری سگی جیسی نہیں؛ بلکہ حضرت عبداللہ کی جڑواں بہن تھی دونوں ایک ہی پیٹ سے بیک وقت تولد ہوئے تھے۔
پھر حضرت عثمانؓ کو ایک بہت بڑا نشان امتیازی حاصل ہوا، یعنی ہجرت سے پہلے حضرت رقیہؓ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کاشرف حاصل ہوا، ان کی ساتھ ہی ہجرت کئے(حبشہ اور مدینہ منورہ)دونوں ہجرتوں کے منازل طے کئے، پھر وہ بیمار ہوگئیں، تو حضرت عثمانؓ نے وفاکابدلہ وفا سے دیا اورغزوہ بدر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کی تیمارداری کرتے رہے۔
حضرت رقیہؓ کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رقیہؓ کی بہن اور اپنی ایک اور صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ سے حضرت عثمان غنیؓ کانکاح کردیا، حضرت ام کلثومؓ حضرت عثمانؓ کے ساتھ رہیں،یہاں تک کہ ہجرت کے نو(۹)سال بعد ان کی وفات ہوئی، اسی وجہ سے حضرت عثمانؓ کو ذی النورین، دوباکمال بیٹیوں کا خاوندکہاجاتاہے، رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
خانوادۂ نبوی میں سلسلہ عثمانی کا مضبوط پایہ وہ رشتہ داریاں ہیں، جن کا تذکرہ آگے آئے گا۔
ان مصاہراتی رشتوں سے اگر یہ بات واضح طورپر سمجھ میں آتی ہے کہ : "والطیبات للطیبین والطیبون للطیبات" وہیں آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآل عثمانؓ کا مضبوط تعلق اورخالص محبت بھی نمایاں ہوتی ہے۔
آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم وآل عثمانؓ کے درمیان مصاہراتی رشتے
یہ مصاہرات حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاداوران کے بڑے شرفاء کے درمیان جاری رہی اورنبویؐ نسب شریف عبدمناف میں جاکر حضرت عثمانؓ سے ملتاہے، پھر اسی نسبی رشتے کو مصاہراتی رشتوں نے اور مضبوط بنایا، یعنی حضرت عثمانؓ کی شادی، حضرات نورَین، رقیہ وام کلثوم رضی اللہ عنہا سے ہوئی۔
پھر یہ قربت اوررشتہ داری پانچ نسلوں تک جاری رہی، چنانچہ ابان بن عثمان ، مروان نبیرہ عثمانؓ، عبداللہ اورزید ابنائے عمرؓ، یہ سب بنی ہاشم کی نیک خواتین سے نکاح کرتے ہیں اوریہ ہی سب کچھ نہیں بلکہ خانوادہ حسنی میں ان کے دو مصاہراتی رشتے موجود ہیں، اورخاندان حسینی میں تین ہیں، یقینا مصاہراتی تعلقات طرفین میں محبت کو بڑھاتے ہیں، آدمی اسی سے دامادی کا رشتہ قائم کرتاہے، جس کی دیانت واخلاق پر اطمینان ہو، کیونکہ اچھے اچھوں کے لئے ہیں، یہ ہی صالحین کا قاعدہ ہے اور متقین کا اصول ہے، شادی بیاہ کے معاملات میں مصاہراتی تعلقات جوں جوں بڑھتے جاتے ہیں، طرفین میں محبت ومؤدت بھی پروان چڑھتی ہے،یہی بات ہمیں ان مصاہراتی پاکیزہ تعلقات میں نظر آتی ہے، جن کی جڑیں اہل بیتؓ اورخاندان عثمانی کے درمیان راسخ ہوگئیں، رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
بیت نبویؐ میں حضرت زبیرؓ
یہ زبیرؓ رسول اللہ  کے شاگرد خاص، آپ کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب کے فرزند، بشارت جنت کے حامل، اصحاب حل وعقد کے ممبر تھے، ان کی ماں ان کی کنیت ابوطاہر رکھتی تھیں، جوان کے ماموں زیدؓ بن عبدالمطلب کی کنیت تھی، بعد میں انہوں نے اپنی کنیت اپنے بیٹے عبداللہ کے نام سے رکھی ہے، وہ زبیرؓ بن عوام بن خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب القرشی الاسدی ہیں۔
بچپن میں مسلمان ہوئے آغوش اسلام میں پرورش پائی، حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ان کے چندرشتے ہیں:وہ جدرابع قصی بن کلاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد کے ساتھ ملتے ہیں، ان کی ماں صفیہ بنت عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف قرشیہ آپ کی پھوپھی اورحضرت حمزہؓ کی سگی بہن ہیں۔
ان کی(صفیہ کی) ماں ہالہ بنت وہب ہیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ ہیں، عوام بن خویلد نے حارث بن حرب بن امیہ کے بعد ان سے شادی کی تھی، ان کے بطن سے زبیر پیدا ہوئے ، وہ مسلمان ہوئیں اور اپنے بیٹے زبیرؓ کے ساتھ ہجرت کی، ان کی وفات خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروقؓ کے عہدخلافت میں ہوئی ہے۔
ان تعلقات کی ایک مضبوط کڑی حضرت زبیرؓ کی پھوپھی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاہیں، جو سب سے پہلے ایمان لے آئیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین پشت پناہ اورسہارابنیں، حضرت فاطمہؓ زہراء زبیرؓ کی پھوپھیی ہی کی بیٹی ہیں، اسی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے، کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیت نبوی ہی کے ایک فرد ہیں۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین، وصلی اللہ علی النبی الامین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔
حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کے درمیان نسلی امتزاج
دنیا کی کوئی چیز ان پاک وشفاف قلوب، قدسی نفوس اور اولوالعزمیوں پرکبھی اثر انداز نہیں ہوئی، کیونکہ خانوادۂ زبیری وخاندان علوی کے درمیان مصاہرات کے ایسے گوناگوں رشتے ہمارے سامنے ہیں، جن کاوجود واقعۂ جمل کے بعد ہواہے، چنانچہ ایک سوسال میں چھ نسلوں کے درمیان رشتوں کی تعداد سولہ تک پہنچ گئی ہے، سبھی دریائے محبت والفت میں غوطہ زن ہیں، اس بحربے کراں کی شفافیت کو دنیا کبھی داغدار نہ بناسکی، نسل حسن کے چھ رشتے، دوپوتے، دوپوتیاں رقیہ اور نفیسہ، نیز حسن بن عبداللہ کے پوتے(جس کا لقب، نفس زکیہ تھا )نے زبیری خانوادہ کے ساتھ مکرر رشتہ قائم کیاتھا۔
جہاں تک حسینی نسل کی بات ہے تو وہ بھی حسنی نسل سے کچھ کم نہیں تھی، اسی میں چھ مصاہراتی رشتے قائم ہوئے تھے ، جن میں مرد پانچ تھے یہ سب علی بن حسین کے پوتے تھے۔
مصعب بن زبیرؓ کے ساتھ بھی خانوادۂ علوی کے پانچ رشتے تھے، اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ان برگزیدہ ہستیوں کے دل میں حسد وکینہ کاشائبہ تک نہ تھا، بلکہ وہ اپنے تمام اختلافا ت کو بھلاچکے تھے، وہ سب مجتہد تھے، بعض مصیب تھے، دوہرے  ثواب کے مستحق تھے، اوربعض مخطی تھے ایک ثواب کے مستحق تھے۔
آل علیؓ وآل طلحہ بن عبیداللہ ؓ کے درمیان مصاہراتی رشتے
اس شخص کے مقام ومرتبہ کا کوئی انکار نہیں کرسکتا، یہ عشرۂ مبشرہؓ میں سے ایک ،آٹھ سب سے پہلے مسلمانوں میں سے ایک، اوران لوگوں میں سے بھی ایک تھے جنہوں نے حضرت صدیق اکبر ؓکے ہاتھ پر اپنے اسلام کا اظہار کیا تھا، نیزیہ چھ اصحابؓ شوریٰ کے بھی رکن رکین تھے،یہ ہیں: طلحہؓ بن عبیداللہ بن عثمان بن عمروبن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب القرشی التمیمی ہیں، چند رشتوں کے ذریعہ یہ خانوادۂ علوی کے قریب ہوگئے، نواسہ حضرت حسنؓ نے، ام اسحاقؓ بنت طلحہؓ سے شادی کی، تاکہ اس سے مبارک حسن پیداہوں۔
پھر اپنے بھائی حضرت حسنؓ کی وفات کے بعد، اسی خاتون سے حضرت حسین شہیدؓ نے شادی کی ، تاکہ یہ عظیم المرتبت رشتہ باقی رہے اورفاطمۃ الزہراءؓ کی پوتی فاطمہ صغریٰؒ وجود میں آئیں، حالانکہ دونوں حسنینؓ نے جنگ جمل میں شرکت فرمائی تھی، پھر ام اسحاق بنت طلحہ سے شادی کرنے کی کیا وجہ تھی، کیا اس کا تشفی بخش جواب اور روشن دلیل یہ نہ تھی کہ ان حضراتؓ کے دل پاک وصاف تھے، غرض مند لوگوں نے ہی تاریخی حقائق کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کی ۔
یہ باہمی روابط مصاہراتی راہ سے مسلسل جار ی رہے ہیں، جب حضرت حسنؓ بن علیؓ کے پوتے عبداللہ المحض اورعون بن محمد بن علیؓ بن ابی طالب نے حضرت طلحہؓ کی پوتی، حفصہ بنت عمران بن ابراہیم بن محمد بن طلحہ سے شادی کی ہے۔
یہ ہماری اس بات کی دلیل ہے خود غرض لوگوں نے واقعہ جمل کے تحت مختلف بے جاباتیں بنائیں ہیں، تاکہ اہل بیتؓ اورصحابہؓ کے درمیان صاف تعلقات کو مسخ کردیاجائے۔(رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)
حضرت حسین بن علیؓ کے داماد دیگر صحابہؓؓ کے فرزندوں میں سے
حضرت حسین بن علی بن ابی طالبؓ کا صحابہؓؓ کے دل میں، نیزان کی اپنی نسل کے دل میں ایک خاص مقام تھا، یہ ان مصاہرات سے ظاہرہوتاہے جو حضرت حسینؓ کی دوبیٹیوں کے حق میں قائم ہوئی ہیں۔
چنانچہ حسن مثنیٰ نے اپنی چچازاد بہن فاطمہ صغریٰؓ سے شادی کی، ان کے بطن سے ممتاز گرامی شخصیات پیدا ہوئیں، جیسے حسن مثلث، عبداللہ المحض، ابراہیم الغمر، زینب(جن کی شادی ولید بن عبدالملک سے ہوئی)اور ام کلثومؓ جن کی شادی اپنے خالہ زاد بھائی حضرت باقرؒ سے ہوئی۔
جنگ کربلا میں زخمی ہونے کے نتیجے میں، حسن مثنی کاانتقال ہونے کے بعد ،فاطمہ صغریٰ کی شادی عبداللہ بن عمر بن عثمانؓ بن عفان (جس کالقب مطرف تھا) سے ہوئی، جس سے ایک لڑکی اورمحمد الدیباجؒؒ پیدا ہوئے۔
امام حسینؓ کی دوسری بیٹی کی شادی، پہلے عبداللہؒ بن حسن بن علی بن ابی طالب (جس کا لقب ابوبکر تھا)سے ہوئی تھی، پھر جب وہ واقعہ طف میں شہید ہوئے، تو ان کی شادی مصعبؓ بن زبیربن العوام سے ہوئی، اس سے ان کی ایک بیٹی ہوئی جس کانام فاطمہ رکھا، لیکن وہ بھی کچھ ہی دن کے اندر شہید ہوگئے، تواس کی شادی عبداللہ بن عثمان بن حکم بن حزام سے ہوئی، اورجب اس کاانتقال ہوگیا، تو عثمانؓ بن عفان کے پوتے زید نے اس سے شادی کی پھر زید کا بھی انتقال ہوگیا، تواس کی ایک جلیل القدر صحابی عبدالرحمن بن عوف ؓکے بیٹے ابراہیمؓ سے ہوئی، لیکن یہ ازدواجی زندگی بھی پائیدار نہ ہوئی، تین مہینے کے بعد طلاق ہوگئی، تو اس کانکاح اصبغ بن عبدالعزیز بن مروان ابن الحکم سے ہوا، جو خلیفہ راشد حضرت عمربن عبدالعزیز کا بھائی ہے۔
اب ہم کو یہ سمجھنا ہے کہ صرف دوشادی (یعنی حسن مثنی کی شادی فاطمہ سے اورعبداللہ بن الحسن کی شادی سکینہ سے) کے علاوہ باقی تمام مصاہراتی رشتے جنگ کربلا کے بعد ہی ہوئے ہیں۔
محمد باقرؒ
محمدبن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالبؓ(مولود/۵۶ھ۔متوفی/۱۱۴ھ)
سردار، بہادر، خانوادۂ نبوت کے چشم وچراغ، ابوجعفر محمدبن علی حضرت زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب قریشی ہاشمی ہیں، جن کی پیدائش سن ۵۶ہجری میں ہوئی ہے۔
انہوں نے علوم کے پردوں کو چاک کرکے، اس کے پوشیدہ خزانوں اوررازہائے سربستہ کوحاصل کیا ، اسی لئے آپ کا لقب باقر(یعنی چاک کرنے والا) پڑگیا، آپ کا یہ علم، تحصیل علم کی راہ میں تگ وتازمسلسل اوربیتابی بے کرانی کاثمرہ ہے،اور معلم اول، مرشد کامل، حضورپرنور صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ اساتذہ جلیل صحابہ کرامؓ کے ساتھ عاجزی وانکساری اوران کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کانتیجہ ہے، جیسے حضرت جابر بن عبداللہؓ، انس بن مالکؓ، عبداللہ بن عمر بن الخطابؓ، عبداللہ بن عباسؓ، اورابوسعید الخدری اوردیگر بڑے بڑے صحابہ کرامؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، ان کی مرویات کو حدیث شریف کی ممتاز ترین بنیادی کتابوں میں جمع کیا گیاہے، ان کی تعداد دوسو سے زائد ہے، یہ ان مرویات کے علاوہ ہیں جو تاریخ وتفسیر کی کتابوں کی زینت بنی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو علمی گھرانے کی ایک نیک خاتون ، ام فروہ بنت القاسم بن محمدبن ابوبکر الصدیق عطا فرمائیں ہے،جس سے علم وتقوی کاایک اور پہاڑ نمودار ہوا، جس کوجعفر صادقؒ کے نام سے یاد کیا جاتاہے، انتہائی محبت ومؤدت اورجاں نثاری ووفاشعاری کا اس وقت ظہور ہوا جب حضرت باقر سے ایک مسئلہ تلوار کے نقش ونگار سے متعلق پوچھا گیا، توانہوں نے جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اپنی تلوار پر نقش ونگار بنوائے تھے، سائل نے کہا: آں جناب بھی ان کو صدیق کہتے ہیں؟ تو حضرت باقر نے اپنی مسند سے قوت سے کودتے ہوئے، قبلہ کی طرف رخ کیا اور تین مرتبہ فرمایا: نعم الصدیق، نعم الصدیق، نعم الصدیق، جو شخص صدیق نہ کہے اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی کسی بات کو سچ قرار نہ دے۔
کیونکر ہوسکتاہے کہ عالی مرتبہ اورعمدہ اعلی حسب ونسب والا، اپنے جیسے بلند اصحاب کی طرف سے دفاع نہ کرے، وہ ایسے شخص کادفاع کیوں نہیں کرے گا، جس نے اپنے نانا کی پشت پناہی کی اوراپنی تمام چیزوں کو اللہ کی راہ میں لگادیاتھا، یہ وفا شعاروں کی راہ متقین کا طریقہ اورپاکبازوں کا اسلوب ہے۔
حفصہ بنت محمد الدیباجؒؒ
جو چاروں خلفائے راشدینؓ اور طلحہؓ وزبیرؓ کی پوتی ہیں۔
کلام کی جامعیت، مضامین کی عمدگی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پنہاں حقائق کواس طرح اجاگر کردیا جائے کہ وہ ہرکس وناکس، عالم وجاہل کے سامنے عیاں ہوجائیں، رشتہ داری کی پائیداری اورقرابت داری وبھائی چارگی کی مضبوطی یہ ہے کہ تعلقات متواتر ومسلسل اور دائمی ہوں، جو حسب ضرورت وموقع تازہ ہوتے رہیں، ایساہی خانوادہ نبوت کے پوتوں اورصحابہؓ کی اولاد کے درمیان ہے۔
 کبھی ایسی رشتہ داریوں کی تعداد ڈیڑھ سو(۱۵۰) سے زائد ہوجاتی تھی جیساکہ حفصہ بنت محمددیباج بن عبداللہ المطرف بن عمر وابن خلیفہ راشد امیرالمؤمنین عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاحال ہے،یہ خاتون بیک وقت ، حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیقؓ ، عمر فاروقؓ، عثمان غنیؓ، علی مرتضیٰؓ اورطلحہ ؓوزبیرؓ؛ کی بیٹی ہیں۔
ان کی (حفصہ بنت محمد دیباجؒ کی)ماں، خدیجہ بنت عثمان بن عروۃ بن الزبیر ہیں۔
اورعروہ کی ماں ، اسماء بنت ابوبکر صدیق ؓ ہیں۔
محمد بن دیباج کی ماں ،فاطمہ بنت حسین بن علیؓ تھیں۔
فاطمہ بنت حسین کی ماں، ام اسحاق بن طلحہ بن عبیداللہ تھیں۔
عبداللہ بن عمر وبن عثمانؓ بن عفان کی ماں، حفصہ بنت عبداللہ بن عمرؓبن الخطاب تھیں، جن کو زینب بنت عبداللہ بن عمرؓ بھی کہاجاتاہے۔
ان حضرات میں عجیب اجتماعیت اورانمٹ اتحاد ہے،نہ اختلاف وتنافر کا کوئی اثر، نہ جھگڑے اورخصومت کا کوئی نشان ہے، جوکچھ ہے وہ تصورات سے بالاتر بلندی، مؤدت کی مضبوط کڑیاں ، گہرے تعلقات اورقوی ترین نسبت ہے، کیا اب کسی جاہل کو یاطوطا چشم کے لئے سچائی اور حقیقت کومان لینے میں کوئی عذر باقی رہ جاتاہے۔
امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم سید المرسلین کی ازواج مطہرات
وہ پاکیزہ عورتیں، شریف وپاکدامن خواتین اور نیک سیرت بیبیاں ہیں، جن کااللہ تعالی نے اس لئے انتخاب کیا، کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سچی مثالی شریک حیات بنیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو امہات المومنین والمومنات کے تمغہ سے نوازا ہے۔
گیارہ مؤمن خواتین بالکل ایسی ہیں جیسے پررونق ، جاذب نظر اورخوشنماہار ہے ، سبھی کا سلسلہ نسب حضور پرنورصلی اللہ علیہ وسلم کے نسب شریف سے ملتاہے، سوائے دوخواتین کے : ایک حضرت جویریہ، جوبقول راجح قحطانی النسل ہیں، دوسری حضرت صفیہ ،جو حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں، تاہم سب ہی زوجاتِ مطہرات کانسب انتہائی پاک وشفاف ہے۔
حضرت خدیجہؓ پہلی بیوی اوراپنے مال سے دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی مددگار ہیں، اورحضرت عائشہؓ  تنہا غیر شادی شدہ خاتون اور سب سے پیاری بیوی تھیں، اوران کے والد محترم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پیارے دوست تھے، اور سب سے آخری زوجہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں، حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلے وفات پانے والی زوجہ حضرت زینب بنت جحشؓ ہیں،سب سے آخر میں وفات پانے والی حضرت ام سلمہؓ ہیں، سبھی کامرقد جنت البقیع ہے، البتہ حضرت خدیجہ الکبریٰ مکہ مکرمہ میں اورحضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مقام سَرَفْ میں دفن ہوئیں۔
وہ سب عالمہ اوراستانیاں ہیں، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے دوہزار دوسودس۲۲۱۰ حدیثیں، حضرت ام سلمہؓ سے تین سواٹھہتر۳۷۸، حضرت میمونہؓ سے صرف اٹھہتر۷۸، حضرت ام حبیبہؓ سے پینسٹھ ۶۵، زینب بنت جحش سے گیارہ۱۱ ،حدیثیں مروی ہیں، نیز دیگر ازواج مطہرات کی اور روایتیں بھی ہیں، سبھی نے حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت یافتہ ہونے کی وجہ سے علم حدیث کو فروغ دینے میں اپنی پاکیزہ زندگی اور اپنے عظیم المرتبت جلیل القدر شوہر(علیہ السلام )کے احوال نقل کر نے میں بھرپور حصہ لیاہے۔
رضی اللہ عن امہات المؤمنین ورحمہن رحمۃ الابرار۔
عشرۂ مبشرہؓ
وہ دس صحابہ کرامؓ ؓجن کوزندگی ہی میں جنت کی بشارت حاصل ہوئی۔
اصحاب علم وفضل، حاملین شرافت وبزرگی ، جن کانسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب شریف سے ملتاہے، جن کے دل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سنیہ میں ڈھلے ہوئے تھے اورجن کے خاکی جسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں وقف شدہ اورقربان تھے، یہ ہیں بشارت کی حامل دس خوش نصیب ہستیاں، جن کے مناقب وفضائل میں بہت سی احادیث وآثار وارد ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتاہوں کہ میں نے ان کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ:
دس شخص جنتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں ہیں، ابوبکرؓ جنت میں ہیں، عمرؓ جنت میں ہیں، عثمانؓ جنت میں ہیں، علیؓ جنت میں ہیں، طلحہؓ جنت میں ہیں، زبیرؓ بن العوام جنت میں ہیں، سعدؓبن مالک جنت میں ہیں، عبدالرحمنؓ بن عوف جنت میں ہیں اوراگر میں چاہوں تو دسویں کابھی نام لے لوں، صحابہؓ نے پوچھا وہ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ سعیدؓ بن زید ہیں۔۔۔!!
یہ دسوں حضرات حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی نسل میں سے ہیں،یہ دعوت اسلام میں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہیں، اسی طرح یہ نسب شریف میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت قریب ہیں، اس لئے ان میں سے کسی کے نسب میں انگلی رکھنے کی کوشش کرنا درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب مبارک میں انگلی رکھنے کے مترادف ہوگا، سوائے حضرت ابوبکرؓ کے والد ماجد کے کسی دوسرے کے والد مسلمان نہیں ہوئے۔
ان میں بعض خلفاءؓ ہیں ، بعض اصحاب شوریٰ ہیں، سبھی سراپا زہدوتقویٰ ہیں، اکثر ان میں سے شہداء ہیں، چنانچہ حضرت عمر، عثمان وعلی، طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم شہیدہوئے، سب سے پہلے وفات پانے والے اورسب سے باکمال حضرت صدیق اکبرؓ ہیں اور سب سے اخیر میں وفات پانے والے ، حضور پرنور کے ماموں حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، سب کے سب غزوہ بدر کی فضیلت کے حاملین ہیں اور سب بیعت رضوان کے بھی شریک ہیں، سوائے حضرت عثمانؓ کے کہ انہیں کی وجہ سے بیعت رضوان ہوئی تھی۔رضی اللہ عنہم وارضاہم، والحقنا بہم فی جنات النعیم فرضی اللہ عنہم اجمعین۔
دنیا میں حضرت امام حسینؓ کے ہمہ گیرکارنامے اورملک گیر فتوحات
وہ انتہائی بہادر، میدان جنگ کا شیرببر تھے، جو شمشیربرّاں کے ٹکراؤ اورتیروں کی برسات سے نہیں ڈرتے تھے، بلکہ ہمیشہ شہادت اور جنت کی سرداری کے خواہاں رہتے تھے، وہ میدان جنگ کاایک عظیم ہیروتھے، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن پر نہ نیند غالب آتی تھی اور نہ سستی وکاہلی تھی، بلکہ وہ تلوار کو سونت لیتے، گھوڑے پر زین کس کے سوارہوتے ، اورمیدان کارزار میں گھس جاتے اور جنگوں میں حصہ لیتے تھے، تاکہ اس عالم آب وگِلْ کے چپہ چپہ میں توحید کا پرچم بلند کیا جاسکے۔
انہوں نے افریقہ کے مختلف ممالک کے فتوحات میں شرکت کی اوروہاں کے اکثر حصوں کورومیوں کے ناپاک قبضے سے پاک کیا، نیز انہوں نے جلیل القدر صحابی حضرت سعیدؓ بن العاص کی سرکردگی میں، طبرستان کے ممالک کو فتح کرنے کے لئے پرزور شرکت فرمائی، پھر سب کے سب وہاں سے ہمہ گیر کامیابی کے تاج پہن کر خوش وخرم واپس ہوئے۔
نیزانہوں نے حضرت معاویہؓ کی دعوت پر، قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے جان ومال سے شرکت فرمائی، اسی غرض سے وہ مدینہ منورہ سے نکل کر ملک شام کےحلب وغیرہ سے گذرتے ہوئے، اس دور دراز ملک تک پہنچ  گئے، مگر چونکہ دشمنان اسلام اپنے بلند وبالا قلعوں میں محفوظ ہوگئے تھے، اس لئے مسلمان ان کو فتح نہ کرسکے، تاہم اللہ تعالی کی طرف سے ان کے دل میں مسلمانوں کا رعب پڑگیاتھا، جس کی وجہ سے وہ مسلسل مسلمانوں کے ساتھ پنجہ آرائی کرنے سے لرزاں وترساں رہتے تھے۔
اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بغرض اعلاء کلمۃ اللہ) ہمیشہ جہاد کرنے اوربے پناہ بہادری کامظاہرہ کرنے کا والہانہ شغف رکھتے اورکارہائے نمایاں کو جبین تاریخ میں ثبت کرنے کی کوشش کرتے تھے،رضی اللہ عنہ وارضاہ۔
اہل بیتؓ میں سے ان حضرات کے اسمائے گرامی جن کا تعلق علوی اورہاشمی خاندان سے ہے، اورجنہوں نے حضرات صحابہ کرامؓ کے اسمائے گرامی کو اپنا نام بنایا۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ
شیعہ وسنی، قریب وبعید رہنے والوں سب کو یہ معلوم ہے کہ ابوبکرصدیق ان کی کنیت اور عبداللہ ان کا اسم گرامی ہے، نیز آپ خلیفہ اول بھی ہیں، رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
ہرعقلمند آدمی یہ جانتاہے کہ جو شخص اپنے لڑکے کانام ابوبکررکھتاہے، یا اپنی کنیت کے طورپر اس کو اپناتاہے وہ صحابہ کرامؓ کو اپنا دوست رکھتاہے اوران سے محبت کرتاہے، جن میں صدیق اکبر سب سے بڑے ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد میں سے وہ اصحاب جن کا نام ابوبکر ہے
۱۔      ابوبکر بن علی بن ابی طالب
میدان کربلا میں حضرت حسینؓ کے ساتھ شہید کئے گئے، ان کی ماں کانام لیلیٰ بنت مسعود نہشلی ہے، ان کا تذکرہ الارشاد للمفید صفحہ ۱۸۶۔۲۴۸، تاریخ الیعقوبی فی اولاد علی، شیخ عباس القمی کی منتہی الآمالی ۱/۲۶۱ پر ہے، شیخ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کانام محمد اور کنیت ابوبکر ہے۔ بحارالانوار للمجلسی ۴۲/۱۲۰۔
۲۔     ابوبکر بن حسن بن علی بن ابو طالب
میدان کربلا میں اپنے چچا حضرت حسین کے ساتھ شہید ہوئے، ان کا تذکرہ شیخ مفید نے اپنی کتاب "الارشاد"کے باب قتلی کربلا  ۲۴۸/کے تحت کیاہے۔
نیزتاریخ یعقوبی کے باب فی اولاد الحسن اورعباس قیمی کی منتہی الآمالی۱/۵۴۴ کے باب استشہاد فتیان بنی ہاشم فی کربلاء، میں ہے:
۳۔     ابوبکرعلی زین العابدین
حضرت علی زین العابدین بن حضرت حسین شہیدؓ کی کنیت ابوبکرہے۔
شیعہ امامیہ کے متعددعلماء نے اس کو ذکر کیاہے، جزائری کی "الانوارالنعمانیہ" کی طرف رجوع کیاجائے۔
۴۔     ابوبکر علی الرضابن موسیٰ الکاظم بن جعفر الصادق
حضرت علی الرضا کی کنیت "ابوبکر"تھی، النوری الطبرسی نے اپنی کتاب "النجم الثاقب" کے  "ألقاب وأسماء الحجۃ الغائب" کے تحت کیاہے، قال: "۱۴۔أبوبکروہي إحدی کنی الإمام الرضا ،کما ذکرہا أبو الفرج الأصفہاني في مقاتل الطالبیین"۔
۵۔     ابوبکر محمد المہدی المنتظر بن الحسن العسکری
ابوبکر حضرت المہدی المنتظر کی ایک کنیت ہے ، جن کے بارے میں شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے کہ ان کی پیدائش "ابوبکر" سے ۱۱۰۰ سوسال پہلے کی ہے، النوری الطبرسی نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں اس کا ذکر کیاہے، لقب ۱۴/ کی طرف رجوع کیاجائے۔
"قلت:تُری لما ذا یُکنی أو یُلقب المہدي المنتظر لدی الشیعۃ الإمامیۃ بأبی بکر؟!!"
۶۔     ابوبکر بن عبداللہ بن جعفر بن ابو طالب
أنساب الأشراف کے مصنف نے ان کا ذکر صفحہ۶۸/پر کیاہے۔ 
"قال: وُلد عبداللہ بن جعفر۔۔۔  وأبابکر قُتل مع الحسین وأمّہم الخوصاء من ربیعۃ۔۔۔"
اورخلیفہ بن خیاط نے اپنی تاریخ کے ص:۲۴۰ پر فی تسمیۃ من قتل یوم الحسرۃ من بنی ہاشم کے تحت کیاہے۔
خلیفۂ ثانی حضرت عمربن الخطابؓ
حضرات صحابہ کرامؓ میں جتنے حضرات بھی عمر کے نام سے متصف تھے ان سب میں حضرت عمرؓبن الخطاب زیادہ مشہور ہیں، اورجوشخص بھی اس نام کو اپنا تاہے ، بلاشبہ وہ اس سے خیروبرکت کا ارادہ رکھتاہے۔
حضرت علی کی اولاد میں سے وہ صاحبان جن کانام"عمر"ہے
۱۔      عمرالاطرف بن علی بن ابوطالب
ان کی والدہ ام حبیب صہباء تغلبی ،ارتداد کے خلاف جنگ کی قیدیوں میں سے تھیں، ابونصر بخاری شیعی کی سرالسلسلۃ العلویۃکے ص:۱۲۳ پر"نسب عمرالأطراف"ملاحظہ کیجئے۔ عباس القمی کی منتہی الآمالی۱/۲۶۱، "قال:عمرورقیۃ الکبری التوأمان"مجلسی کی بحار الانوار۴۲/۱۲۰
۲۔     عمربن حسن بن علی بن ابوطالب
ان کی ماں کانام ام ولد ہے، یہ اپنے چچا حضرت حسین کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے، ابن عتبہ ہامش کی عمدۃ الطالب ص:۱۱۶، تاریخ یعقوبی ص:۲۲۸ فی اولاد الحسن کی طرف رجوع کیاجائے، یعقوبی نے اپنی کتاب التاریخ میں ذکر کیاہے: "وکان للحسن ثمانیۃ ذکوروہم الحسن۔۔۔وزید۔۔۔وعمروالقاسم وأبوبکر وعبدالرحمن لأمہات شتی وطلحۃ وعبداللہ۔۔۔"
۳۔     عمرالاشرف بن علی زین العابدین بن حسین
ان کی ماں نام ام ولد ہے، اوران کا لقب اشرف تھا، کیونکہ وہ عمرجن کا لقب "اطرف"ہے وہ عمربن علی بن ابوطالب ہیں، شیخ مفید کی الارشاد ص:۲۶۱، ابن عقبہ کی عمدۃ الطالب ص:۲۲۳، دیکھئے: ان کالقب اشرف ہے، کیونکہ یہ حسینی اورحسنی دونوں خاندان سے ہیں اورعمرالاطرف صرف والد کی طرف سے ہیں یعنی علی بن ابوطالب۔
عمربن یحییٰ بن حسین بن زید شہید بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب: محمد اعلمی حائری نے اپنی کتاب "تراجم أعلام النساء" میں اسم بنت الحسن بن عبداللہ بن اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر الطیار۔۔۔، کے تحت ص:۳۵۹ پر ان کانام ذکر کیاہے۔
۴۔     عمربن موسیٰ الکاظم بن جعفر الصادق
ابن الخشاب نے ان کا ذکر موسیٰ الکاظم کی اولاد میں کیاہے۔
ابن الخشاب نے فرمایا:"عشرون ابنازائداًفیہم عمراً وعقیلاً وثمانی عشرۃ بنتا"، محمد تقی تستری کی تواریخ النبی والآل ، کی طرف رجوع کیجئے۔
خلیفۂ ثالث حضرت عثمان بن عفانؓ
خلیفۂ ثالث حضرت عثمان بن عفان ذی النورین شہید جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختران محترم حضرت رقیہ وام کلثوم کے زوج محترم بھی ہیں۔
حضرت علی کی اولاد میں سے جن صاحبان کانام بنام عثمان رکھاگیا
۱۔      عثمان بن علی بن ابوطالب
حضرت حسین کے ساتھ میدان کربلا میں شہیدہوئے، ان کی والدہ ام بنین بنت حزام وحیدیہ ثم کلابیۃہیں، شیخ مفید کی الارشاد ص:۱۸۶۔۴۲۸، شیخ محمد رضاحکیمی کی اعیان النساء ص:۵۱، تاریخ یعقوبی کی باب اولاد علی، منتہی الآمالی۱/۵۴۴، القستری فی تواریخ النبی والآل ص:۱۱۵ فی اولاد أمیرالمؤمنین کی مراجعت کی جائے۔
۲۔     عثمان بن عقیل بن ابوطالب
بلاذری نے انساب الاشراف میں ص:۷۰پر ان کاذکر کیاہے، "قال: ولد عقیل مسلما۔۔۔وعثمان"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ دخترحضرت ابوبکرصدیقؓ حضرت عائشہؓ ہیں۔
۱۔       قابل ذکر بات یہ ہے کہ اہل بیتؓ سے ایک لڑکا ہے ،جس کے بہت سے صاحبزادے ہیں اور ایک لڑکی بھی ہے جن کانام عائشہ ہے۔دیکھئے! عائشہ نام رکھنے میں آخر اس قدر رغبت کیوں ہے؟ ذرا غور تو کیجئے!
علمائے شیعہ کواس کاجواب دیناچاہئے، اگران کے پاس جواب ہے!! اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطافرمائے! آمین
۲۔     عائشہ بنت موسیٰ الکاظم بن جعفر الصادق
یہ حضرت موسیٰ الکاظم کی اولاد میں سے ہیں، ان کا ذکر خود متعدد شیعہ علماء نے کیاہے، مثلاً شیخ مفید نے الارشاد ص:۳۰۳ ۔ ابن عنبہ ہامش نے عمدۃ الطالب ص:۲۶۶۔ نعمت اللہ جزائری نے الانوارالنعمانیۃ ۱/۳۸۰ میں کیاہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے اہل بیتؓ کرام کی شدت محبت کی ایک قابل ذکر علامت یہ ہے کہ موسیٰ الکاظم کی(۳۷/اولادتھیں جن میں سے )ایک لڑکی کانام عائشہ بھی تھا۔
نعمت اللہ جزائری نے(الانوارالنعمانیۃ میں۱/۳۸۰ )پر لکھاہے :
"وأماعددأولادفہم سبعۃ وثلاثون ولداً ذکرا وأنثیٰ: الإمام علي الرضا و۔۔۔و۔۔۔و۔۔۔وعائشۃ"
اگر چہ ان کی اولا دکی تعدادمیں اختلاف ہے، لیکن اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ان کی ایک لڑکی تھی جس کانام عائشہ تھا، ابونصربخاری نے کہا:
" ولد موسیٰ من ثمانیۃ عشرابناواثنتین وعشرین بنتاً"،
(سرالسلسلۃ العلویۃ ص:)۵۳
تستری نے تواریخ النبی والآل، میں سترہ لڑکیوں کاتذکرہ کیاہے، جن میں فاطمہ کبریٰ ، فاطمہ صغریٰ، رقیہ، رقیہ صغریٰ، حکیمہ، ام ابی حکیمہ، ام کلثوم، ام سلمہ، ام جعفر، لبانہ، علیۃ، آمنہ،حسنہ، بریہہ، عائشہ، زینب اور خدیجہ شامل ہیں، تواریخ النبی والآل ۱۲۵۔۱۲۶۔
۳۔     عائشہ بنت جعفربن موسیٰ الکاظم بن جعفر الصادق
۴۔     عائشہ بنت علی الرضا بن موسیٰ الکاظم
ابن خشاب نے اپنی کتاب "موالید اہل البیت" میں ان کا ذکر کیاہے، کہتے ہیں:علی الرضا کے پانچ لڑکے اورایک لڑکی تھی، لڑکوں کانام محمدقانع، حسن، جعفر، ابراہیم، اورحسین ہیں، اورلڑکی کانام عائشہ ہے،
(تواریخ النبی والآل ص:۱۲۸)
۵۔     عائشہ بنت علی الہادی بن محمدالجوادبن علی الرضا
شیخ مفید نے(الارشاد ص:۳۳۴)پر ان کا ذکر کیاہے ، قال:
"وخلف من الولد أبا محمدالحسن ابنہ ہوالإمام من بعدہ والحسین ومحمد وجعفروابنتہ عائشۃ۔۔۔"
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت علی کی اولاد میں سے جن لوگوں نے اپنا نام طلحہ رکھاہے:
۱۔      طلحہ بن حسن بن علی بن ابوطالب
یعقوبی نے اپنی تاریخ میں حضرت حسنؓ کی اولاد میں ان کا تذکرہ کیاہے(ص:۲۲۸)اورتستری نے تواریخ النبی والآل میں(ص:۱۲۰)۔
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت علیؓ کی اخلاف میں سے جن حضرات نے اپنا نام معاویہ رکھاہے:
۱۔      معاویہ بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب
یہ عبداللہ بن جعفرؓ کی اولاد میں سے ہیں، جن کانام معاویہ بن ابوسفیان ہے، نیزاس معاویہ کی اولاد ہیں،(ان کی نسل چلی)
(انساب الاشراف:۶۰،۶۸ ابن عنبہ کی عمدۃ الطالب:۵۶)
اہل بیتؓ اورصحابہ کرامؓ کے درمیان ازدواجی رشتے
اہل بیتؓ اورآل صدیق اکبرؓ بنی تیم کے درمیان رشتے
۱۔      محمدبن عبداللہ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ دختر صدیق اکبر سے نکاح فرمایا ،شیعہ امامیہ کے علماء  میں سے کوئی بھی عالم اس نکاح کا منکر نہیں ہے، اگرچہ علمائے شیعہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے سلسلہ میں زبان درازی کرتے ہیں ، اوران کاکوئی بھی عالم نہ نیا نہ پرانا حضرت عائشہ پر ترضی نہیں پڑھتا؛ بلکہ اس کے برعکس ان پر نہایت برے الزامات لگاتاہے، جیساکہ شیخ عباس قمی نے اپنی تفسیر وغیرہ میں علمائے شیعہ سے نقل کیاہے۔
۲۔     موسیٰ الجون بن عبداللہ المحض بن حسن مثنیٰ بن حسن السبط بن علی بن ابوطالب
انہوں نے ام سلمہ بنت محمد بن طلحہ بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابوبکر صدیقؓ سے نکاح کیا تھا، جن سے عبداللہ پیداہوئے، اس کا علمائے شیعہ میں سے :تراجم أعلام النساء کے مصنف نے ص:۲۷۳ پر اورابونصر بخاری نے سرالسلسلۃ العلویۃ ص:۲۰ میں تذکرہ کیاہے، نیز ابن عتبہ نے عمدۃ الطالب ص:۱۳۴ میں کیاہے:
 "وام سلمۃ ہذہ أمہا عائشۃ بنت طلحۃ بن عبیداللہ وأمہا ام کلثوم بنت أبی بکرالصدیق"
۳۔     اسحاقؓ بن جعفر بن ابوطالب
انہوں نے ام حکیم بنت قاسم بن محمد بن ابوبکرصدیقؓ سے شادی کی، اوریہ فروہ کی بہن تھیں، ان کا ذکر علمائے شیعہ میں سے محمداعلمی الحائری نے اپنی کتاب’‘ تراجم أعلام النساء " میں(ص:۲۶۰)پر کیاہے۔
۴۔     محمد الباقرؒ بن علی زین العابدین بن حسین
انہوں نے ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیقؓ سے نکاح کیا، جن سے جعفر صادقؒ پیداہوئے، اس رشتہ کاتذکرہ شیعہ امامیہ کے مراجع ومآخذ میں ملتاہے، جیسے:شیخ مفید کی الارشاد(ص:۲۷۰)محمداعلمی حائری کی تراجم اعلام النساء(ص:۲۷۸)ابن عنبہ کی عمدۃ الطالب(ص:۲۲۵)حضرت جعفر صادقؒ کا یہ مقولہ مشہور ہےکہ میں ابوبکرصدیقؓ سے دومرتبہ پیداہوا، جعفرصادق کو عظم و شرف کا ستون کہاجاتاہے، ابن طقطفی کی الأصیلي(ص:۱۴۹)"مقالۃ جعفر الصادق المشہورۃ ولد فی ابوبکرمرتین"اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ماں ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابوبکر ہیں اورام فروہ کی والدہ اسماء بنت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ ہیں، اگرقارئین کرام غورفرمائیں تویہ واضح ہوجائے گا کہ آل صدیق اکبرؓ سے ان کا کتنا اچھا رشتہ تھا۔
۵۔     حسن بن علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہما
حضرت حسن ؓ نے حفصہؓ بنت عبدالرحمن بن ابوبکرصدیقؓ سے نکاح فرمایاتھا، تستری نے تواریخ النبی والآل کے ص:۱۰۷، پر ازواج الإمام الحسن کے تحت اس کا ذکرکیاہے۔
اہل بیتؓ اورآل زبیرؓ کے درمیان رشتے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی
۱۔      حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلب
حضرت العوام بن خویلد نے آپ سے نکاح کیا، جن سے زبیر بن العوام پیداہوئے، یہ رشتہ تمام مراجع اورکتب انساب کامتفق علیہ ہے، مؤرخین اورعلمائے انساب میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیاہے۔
۲۔     ام الحسنؓ بن حسن بن علی بن ابوطالب
حضرت عبداللہ بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ  نے اس سے نکاح کیا، اس نکاح کا ذکر شیعہ علماء میں سے عباس قیمی نے منتہی الآمال(ص:۳۴۱)ابن عتبہ نے عمدۃ الطالب(ص:۲۸۸)شیخ محمد حسین اعلمی حائری نے تراجم اعلام النساء(ص:۳۴۶) اورابوالحسن عمری نے المجدی میں کیاہے نیز علمائے انساب میں سے بلاذری نے أنساب الأشراف(۲/۱۹۳)میں اورمصعب زبیربن بکاء نے نسب قریش (ص:۵۰) پر کیاہے۔
۳۔     رقیہؒ بنت حسن بن علی بن ابوطالب
حضرت عمروبن زبیر بن عوامؓ نے ان سے نکاح کیا، اس نکاح کا تذکرہ شیعہ علماء میں سے عباس قیمی نے منتہی الآمال (۳۴۲)میں اعلمی نے تراجم اعلام النساء(ص:۳۴۶)ابوحسن عمری نے المجدی اورابن عنبہ نے عمدۃ الطالب(ص:۸) میں کیاہے، علماء انساب میں سے مصعب زبیری نے نسب قریش(ص:۵۰)پر کیا ہے۔
۴      ملیکہؒ بنت حسن بن علی بن ابوطالب
حضرت جعفربن مصعب بن زبیرؓ نے ان سے شادی کی جن سے ایک لڑکی فاطمہ پیداہوئی، مصعب زبیری کی نسب قریش، ص:۵۳ ملاحظہ فرمائیے۔
۵۔     موسیٰ بن عمر بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب
آپ نے عبیدۃ بنت زبیر بن ہشام بن عروہ بن زبیر بن عوامؓ سے نکاح کیا، جن سے عمردرج، صفیہ اور زینب پیداہوئیں، مصعب زبیری کی "نسب قریش" ص:۷۲ ملاحظہ فرمائیے۔
۶۔     جعفراکبر بن عمر بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب
آپ نے فاطمہ بنت عروہ بن زبیر بن عوام سے نکاح فرمایا، جن سے علی پیداہوئے، مصعب زبیری کی نسب قریش، ص:۷۲ ملاحظہ کیجئے۔
۷۔     عبداللہ بن حسین بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب
آپ نے ام عمروبنت عمروبن زبیر بن عروہ بن عمربن زبیر سے نکاح کیا، جن سے جعفر اور فاطمہ پیدا ہوئے، مصعب زبیری کی نسب قریش(ص:۷۳،۷۴)ملاحظہ فرمائیے۔
۸۔     محمدبن عوف بن علی بن محمد بن علی بن ابوطالب
آپ نے صفیہ بنت محمد بن مصعب بن زبیر سے نکاح کیا، جن سے علی اورحسنۃ پیدا ہوئیں، مصعب زبیری کی نسب قریش ص:۷۷ ملاحظہ فرمائیے۔
۹۔     بنت القاسم بن محمدبن جعفر بن ابوطالب
بنت قاسم سے حضرت حمزہ بن عبداللہ بن زبیر بن عوام نے نکاح کیا، جن سے ان کی اولاد بھی ہوئیں، مصعب زبیری کی نسب قریش(ص:۸۲) ملاحظہ فرمائیے۔
۱۰۔    محمدبن عبداللہ النفس الزکیۃ بن حسن مثنی بن حسن سبط بن علی بن ابوطالب
آپ نے فاختہ بنت فلیح بن محمدبن منذر بن زبیر سے نکاح فرمایاجن کے بطن سے طاہرپیداہوئے، ابونصر بخاری نے سرالسلسلۃ العلویۃ، میں ص:۱۸پر ذکر کیاہے۔
۱۱۔     حسین اصغربن علی زین العابدین بن حسین
آپ نے خالدہ بنت حمزہ بن مصعب بن زبیر بن عوام سے شادی کی، اس کاتذکرہ شیخ محمدحسین اعلمی شیعی نے تراجم اعلام النساء میں(ص:۳۶۱)پر کیاہے۔
۱۲۔    سکینہ بنت حسین بن علی بن ابوطالب
مصعب بن زبیر بن عوام نے ان سے نکاح کیا ، اس کاتذکرہ علم انساب کے دوبڑے شیعی علماء نے کیاہے، ابن عنبہ کی عمدۃ الطالب فی أنساب آل أبی طالب میں(۱۲۸ھ۔ ص:۱۱۸،) ابن طقطقی کی الاصیلی فی انساب الطالبین میں ت۷۰۹ھ(ص:۶۵۔۶۶)
۱۳۔    حسین بن حسن بن علی بن ابوطالب
آپ نے امینہ بنت حمزہ بنت منذر بن زبیر بن عوام سے نکاح فرمایا، ابونصر بخاری شیعی نے "سرالسلسلۃ العلویۃ" میں ص:۱۰۳ پر ذکر کیاہے، کہ حسین بن حسن کے لڑکے محمد، علی، حسن اور لڑکی فاطمہ تھی، جس کی ماں امینہ بنت حمزہ بن منذر بن زبیر ہیں۔
۱۴۔    علی خرزی بن حسن بن علی بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب
آپ نے فاطمہ بنت عثمان بن عروہ بن زبیر بن عوام سے نکاح فرمایا۔
ابونصر بخاری نے "سرالسلسلۃ العلویۃ" میں(ص:۱۰۲) پر ذکر کیاہے، کہ علی بن حسن بن علی معرف بہ خرزی کے لڑکے حسن، ہیں جن کی ماں فاطمہ بنت عثمان بن عروہ بن زبیر بن عوام ہیں۔
اہل بیتؓ اورآل خطّاب بن عدی کے درمیان ازدواجی رشتے
۱۔      محمدبن عبداللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب سے نکاح فرمایاتھا، اس نکاح کے بارے میں کسی بھی شیعہ عالم کاکوئی اختلاف نہیں، اگرچہ شیعہ امامیہ کے علماء حضرت حفصہ پر بھی ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی طرح سب وشتم کرتے ہیں۔
۲۔     حسن افطس بن علی بن علی زین العابدین بن حسین
حضرت حسن افطس نے بنت خالد بن ابی بکر بن عبداللہ بن عمر بن الخطابؓ سے نکاح کیاتھا، اس نکاح کا تذکرہ شیعہ عالم کی کتاب عمدۃ الطالب(ص:۳۳۷) اورتراجم اعلام النساء(ص:۳۶۱)پر ہے۔
۳۔     حسن مثنی بن حسن علی بن ابی طالب
آپ نے رملہ بنت سعید بن زید بن نفیل عدوی سے نکاح کیا، جن سے محمد، رقیہ اور فاطمۃ پیداہوئیں، علمائے شیعہ میں سے ابن عنبہ نے عمدۃ الطالب، میں(ص:۱۲۰ )پر اس کا تذکرہ کیا ہے۔
اہل بیتؓ اوربنی تیم کے درمیان رشتے
۱۔      حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما
آپ ؓ نے ام اسحاق بنت طلحہ بن عبیداللہ تیمی سے نکاح فرمایا، جن سے فاطمہ، ام عبداللہ اورطلحہ بن حسن پیدا ہوئے، اس نکاح کا تذکرہ شیعہ امامیہ کے کئی ایک مراجع ومآخذ میں ہے، جیسے: شیخ مفید کی الارشاد(ص:۱۹۴) شیخ عباس قیمی کی منتہی الآمال (ص:۶۵۱) فصل ۱۲ فی بیان اولاد الحسین کشف الغمۃ کی معرفۃ الائمۃ(۲/۵۷۵ فی ذکر أولاد الحسن) اورالجزائری کی الانوارالنعمانیۃ(۱/۳۷۴)وقال:
"والحسن الاثرم بن حسن وطلحۃ وفاطمۃ أمہم ام اسحاق بنت طلحۃ بن عبیداللہ التیمی"۔
حسین اثرم بن حسن، طلحہ اور فاطمہ کی ماں ام اسحاق بنت طلحہ بن عبیداللہ تیمی ہیں۔
۲۔     حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما
حضرت حسینؓ نے ام اسحاق بنت طلحہ بن عبیداللہ تیمی سے نکاح فرمایا، اور اپنے انتقال سے پہلے حضرت حسن کو وصیت فرمائی کہ ام اسحاق سے نکاح کریں، چنانچہ حضرت حسن نے ایساہی کیا اوران کے بطن سے فاطمۃ بنت حسین پیدا ہوئیں، اس بات کا تذکرہ شیعہ امامیہ کے مآخذ میں ملتاہے، جیسے: شیخ مفید کی الارشاد(ص:۱۹۴) شیخ عباس قمی کی منتہی الآمال(ص:۶۵۱،الفصل ۱۲ فی فصل بیان اولاد الحسین) الجزائری کی الانوار النعمانیۃ(۱/۳۷۴) وقال: "فاطمۃ بنت الحسین وأمہا أم اسحاق بنت طلحۃ بن عبیداللہ"
فاطمہؓ بنت حسین کی ماں ام اسحاق بنت طلحہ بن عبیداللہ ہیں۔
اہل بیتؓ اور بنی امیہ کے درمیان رشتے
۱۔      حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ دختران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
دونوں دختران مکرم کانکاح، خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی  رضی اللہ عنہ سے ہواتھا، اس رشتہ کے بارے میں شیعہ امامیہ کے کسی عالم کو کوئی اختلاف نہیں ہے،اس کے باوجود وہ حضرت عثمان بن عفانؓ کو ہمیشہ برا بھلا کہتے ہیں، وہ کہتے ہیں اگرچہ یہ نکاح ہواہے لیکن یہ: "مناکحۃ من أظہرالاسلام وأضمرالکفر"(اس آدمی کانکاح جس نے اسلام کو ظاہر کیااورکفر کو اپنے دل میں چھپایا)کی طرح ہے، اس کے لئے دیکھئے:شیخ مفید کی المسائل السرویۃ علمائے شیعہ کا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت رقیہؓ کی موت عثمان بن عفان ؓکے ان کومارنے پیٹنے کی وجہ سے ہوئی تھی، لیکن سوال یہ ہوتاہے کہ اگر ایساتھا تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت رقیہؓ کی وفات کے بعدحضرت ام کلثومؓ کانکاح حضرت عثمان غنی ؓ سے کیوں کیا؟
۲۔     حضرت زینبؓ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت زینب کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے ہواتھا، ابوالعاص بن ربیع، حضرت زینب کی خالہ ہالہ بنت خویلد کے لڑکے ہیں، حضرت زینب کے بطن سے ایک لڑکی پیداہوئی جن کانام امامہ تھا، جن سے حضرت علی نے فاطمہ زہراؓ کے انتقال کے بعد نکاح کرلیاتھا، اس رشتہ میں بھی شیعہ امامیہ کے کسی بھی عالم کااختلاف نہیں۔
۳۔     علی بن حسن بن علی بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب
انہوں نے رقیہ بنت عمر عثمانیہ سے نکاح کیاتھا، ابونصر بخاری نے اس کا تذکرہ کیاہے:
وقال: "وعلی بن الحسن بن علی الخرزي ہو الذي تزوّج برقیّہ بنت عمر العثمانیۃ وکانت من قبل تحت المہدي بن المنصور، فأنکرذلک الہادی وأمر بطلاقہا فأبی علی بن الحسن ذلک وقال: لیس المہدي برسول اللہ حتی تحرّم نساؤہ بعدہ ولا ہوا لمہدي أشرف منی"۔  
(سرالسلسلۃ العلویۃ ص:۱۰۳)
علی بن حسن بن علی خرزی نے رقیہ بنت عمر عثمانیہ سے نکاح کیاتھاجوان سے پہلے مہدی بن منصور کے نکاح میں تھی، چنانچہ ہادی کو یہ ناگوار گزراوراس نے طلاق کاحکم دیالیکن علی بن حسن نے اس کو رد کردیا، اور فرمایا کہ مہدی کوئی رسول نہیں کہ اس کے بعد اس کی عورتوں سے نکاح حرام ہوجائے اورنہ مہدی ہے جومجھ سے اشرف ہے۔
۴۔     حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
حضرت علیؓ نے امامہ بنت ابوالعاص بن ربیع سے نکاح فرمایا، قدمربیانہ۔
۵۔     خدیجہؒ بنت علیؓ بن ابوطالب
خدیجہ بنت علی کانکاح عبدالرحمن بن عامر بن کریزاموی سے ہواتھا، اس کاتذکرہ علمائے شیعہ میں سے ابن عنبہ نے عمدۃ الطالب (ص:۸۳) ابوالحسن عمری شیعی کی کتاب المجدي سے نقل کرکے حاشیہ پر ذکر کیا ہے، تراجم اعلام النساء(ص:۳۴۵)ابن حزم کی جمہرۃ انساب العرب(ص:۶۸)وقال فی عمدۃ الطالب:’‘تزوجہا عبدالرحمن بن عامر الاموی، ولم یذکر اسم کُریز"
۶۔     رملہؒ بنت علیؓ بن ابوطالب
معاویہ بن مروان بن حکم نے ان سے نکاح کیا تھا، نسب قریش(ص:۴۵)جمہرۃ أنساب العرب(ص:۸۷)جمہرۃ انساب العرب میں یہ مذکورہے کہ رملہ ابوالہیاج ہاشمی جن کانام عبداللہ بن ابی الحارث بن عبدالمطلب ہے کے نکاح میں تھیں، جن سے اولاد بھی ہوئی اورسفیان بن حارث کے لڑکے کے فوت ہوجانے کے بعد، معاویہ بن مروان بن حکم نے رملہ سے نکاح کیا۔
۷۔     زینب بنت حسن مثنی بن حسن بن علی ؓبن ابوطالب
خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان نے ان سے نکاح کیا ، نسب قریش(ص:۵۲ )جہرۃ انساب العرب(ص:۱۰۸)
۸۔     نفیسہ بنت زید بن حسن بن علیؓ بن ابوطالب
خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان نے ان سے نکاح کیا، ابن عنبہ جو شیعہ صاحبان کا علم الانساب میں بڑا ماہرعالم ہے، اس نے اس نکاح کاتذکرہ عمدۃ الطالب(ص:۶۱ اور ص:۹۰) پر کیاہے۔
۹۔     ام ابیہا بنت عبداللہ بن جعفرؓ بن ابوطالب
ان سے خلیفہ عبدالملک بن مروان نے نکاح کیاتھا، انساب الاشراف ص:۵۹،۶۰ میں لکھاہے:
"وکانت لعبد اللہ ابنۃ یقال لہا ام ابیہا تزوجہا عبدالملک بن مروان"۔
عبداللہ کی ام ابیہا نامی ایک لڑکی تھی جس کانکاح عبدالملک بن مروان سے ہواتھا۔
اوریہ بھی کہا گیاہے کہ ان کانام ام کلثوم ہے، عبدالملک نے ان سے شادی کی تھی، پھر طلاق دی دی تھی اوراس کے بعد ان سے ابان بن عثمان بن عفان نے نکاح کیا ، نیزیہ بھی کہاگیاہے کہ یہ دوعورتوں کے علیحدہ علیحدہ نام ہیں، وہ خاتون جن سے پہلے عبداللہ نے شادی کی، پھر علی بن عبداللہ بن عباس نے، یہ ام ابیہاکی بہن ہیں۔ محمد حکیمی نے اعیان النساء ص:۲۰ میں کہاہے:
"وتزوجہا عبدالملک بن مروان بدمشق فطلقہا فتزوجہا علی بن عبداللہ بن عباس وہلکت عندہ"عبدالملک بن مروان نے ام ابیہا سے دمشق میں نکاح کیاتھا اور طلاق بھی دیدی تھی، اس کے بعد علی بن عبداللہ بن عباس نے ان سے نکاح کیا اور تاحیات انہی کے پاس رہی۔ اوریعقوبی کی تاریخ میں ص:۳۲۲ پرہے:
"وکانت لعلی بن عبداللہ بن عباس اثنان وعشرون ولداًوعبداللہ الأکبر أمہ أبیہا بنت عبداللہ بن جعفر بن أبی طالب"
۱۰۔    فاطمہؒ بنت حسین شہید بن علیؓ بن ابوطالب
آپ سے حضرت عبداللہ بن عمر وبن عثمان بن عفانؓ نے نکاح فرمایاتھا، جن سے محمد الدیباجؒ پیدا ہوئے، محمدالدیباج اپنے ماں شریک بھائی، عبداللہ المحض، حسن المثلث اوردوسرے اہل بیتؓ کے ساتھ منصور دوانیقی کے قید میں ۱۴۵ھ میں شہیدکئے گئے، فاطمہ بنت حسین پہلے حسن المثنی کے نکاح میں تھیں ، جن سے عبداللہ المحض ، حسن المثلث، اورابراہیم الغمر پیداہوئے، اگرچہ علمائے شیعہ امامیہ اس نکاح سے تجاہل برتتے ہیں اور اکثر اس کا انکار بھی کرتے ہیں، جیساکہ علی محمدعلی دخیلی نے ابنی کتاب’‘فاطمۃ بنت الحسین" میں لکھا ہے کہ فاطمہ نے صرف حسن مثنی بن حسن البسط سے نکاح کیاتھا، جن سے اولاد بھی ہوئیں، وہ علمائے شیعہ جنہوں نے اس نکاح کو نظر انداز کیاہے شیخ محمد رضا حکیمی ہیں، انہوںنے اپنی کتاب اعیان النساء عبر العصورالمختلفۃ میں فاطمۃ بنت حسین کے ترجمہ میں لکھاہے کہ ان کا نکاح حسن المثنی سے ہوا، جن سے کئی اولاد ہوئیں، جو منصور دوانیقی کی قید میں رہے اور اسی میں شہید کردئیے گئے ، لیکن اس کا تذکرہ نہیں کیا کہ قید میں ان کے ساتھ ان کے ماں شریک بھائی محمد الدیباجؒ بن عبداللہ بن عمروبن عثمان بن عفانؓ بھی شہید ہوئے تھے۔
لیکن مجموعی طور پر علمائے شیعہ امامیہ نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ فاطمہ بنت حسین کی ماں ام اسحاق بنت طلحہ بن عبید اللہ ہیں، اور یہ وہی ام اسحاق ہیں جو حسن البسط کے نکاح میں تھیں اور ان سے بچے بھی ہوئے، نیز حضرت حسن ؓنے اپنی وفات سے قبل اپنے بھائی حضرت حسین کو وصیت فرمائی تھی کہ وفات کے بعد ان سے نکاح کرلیں، چنانچہ حضرت حسینؓ نے نکاح کیااور ان سے فاطمہ بنت حسینؓ پیداہوئیں،یہ بات تمام مراجع ومآخذ میں مذکور ہے۔
شیعہ امامیہ کے مآخذ ومراجع کو ملاحظہ فرمائیے:جیسے شیخ مفید کی الارشاد(ص:۱۹۴)نعمت اللہ جزائری کی الانوار النعمانیۃ (۱/۳۷۴) الاصیلی(ص:۶۵،۶۶)عمدۃ الطالب(ص:۱۱۸)علم الانساب کی بعض کتابیں:انساب الاشراف(۴/۶۰۷) جمہرۃ انساب العرب(ص:۴۱۔۸۳) نسب قریش ص:۵۱
حضرت فاطمہؒ بنت حسینؓ کی وفات  ۱۱۷ھ میں ہوئی اور اسی سال ان کی بہن سکینہؒ بنت حسین اورفاطمہ کبریٰؒ بنت علی بن ابوطالب کی وفات ہوئی، اگر قارئین کرام علمائے شیعہ امامیہ کی وہ تصریحات جن سے فاطمہ بنت حسین کی عبداللہ بن عمر وبن عثمان بن عفانؓ سے نکاح کا ثبوت ہوتاہے، پڑھناچاہیںتو درج ذیل مآخذ سے رجوع کرسکتے ہیں:
الف:ابن طقطقی جواکابرعلماء شیعہ میں علم الانساب کے بڑے ماہر عالم ہیں، انہوں نے اپنی کتاب "الاصیلی فی انساب الطالبین" میں اس نکاح کا ذکر کیاہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
"خلف فاطمۃ بنت الحسین عبداللہ بن عمر وبن عثمان بن عفان فولدت لہ"۔
عبداللہ بن عمروبن عثمان بن عفانؓ نے فاطمہؒ بنت حسین سے بعد میں نکاح کیا جن کے بطن سے اولاد بھی ہوئی۔
ب:ابن عنبہ جو بڑے مشہور شیعی عالم انساب ہیں، اپنی کتاب عمدۃ الطالب کے اندر انساب آل ابی طالب کے تحت اس نکاح کا ذکر کرتے ہیں(ص:۱۸۸، ہامش الکتاب) وقال المحقق:
"وکانت فاطمۃ تزوجت بعد الحسن المثنی عبداللہ بن عمروبن عثمان بن عفان الأموی۔۔۔ فولدت لہ أولاداً منہم محمد المتقول مع أخیہ عبداللہ بن الحسن ویقال لہ الدیباج والقاسم ورقیۃ بنو عبداللہ بن عمرو"۔
(عمدۃ الطالب ص:۱۱،الہامش)
خلاصہ 
 حاصل بحث یہ ہے کہ حضرت فاطمہ  بنت حسینؓ کانکاح عبداللہ بن عمروبن عثمان بن عفانؓ سے ثابت ہے، جس کا تذکرہ شیعہ امامیہ اوراہل سنت والجماعت دونوں کے مآخذ میں مذکور ہے، اس کتاب کے ص: ۲۷پر مآخذ مذکور ہیں، جن میں تین مآخذ شیعہ امامیہ کے ہیں جو یہ ہیں:۱۔ ابن طقطقی کی الاصیلیفی فی انساب الطالبین(ت:۷۰۹ھ ص:۶۵۔۶۶)، ۲۔ ابن عنبہ کی عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب(ت:۷۴۸ھ ص:۱۱۸)، ۳۔ تاریخ الیعقوبی(۲/۳۲۴)
تاریخ وانساب کی کتب ومراجع کے لئے ہم مندرجہ ذیل کتب کی طرف رہنمائی کرتے ہیں:
ابن قتیبہ ت:۲۷۶ھ کی المعارف۔ ذہبی ص:۴۲۲ کی تاریخ الاسلام أحداث ۱۲۰،۱۰۱، ابن جوزی ت۵۹۷ھ ۱۷/۱۸۲ نمبر۶۳۰ کی المنتظم في تاریخ الامم والملوک۔
احمد بن یحییٰ بلاذری کی انساب الاشراف،(۲/۱۹۸)ابن کثیرت ۷۷۴ھ کی البدایۃ والنہایۃ ت۷۷۴ھ، ابن عبدربہ کی العقد الفرید، اورابن حجرعسقلانی کی تقریب التہذیب(۲/۴۸۲۔۲۰۹)ابن حجر۸۵۲ھ کی تہذیب التہذیب(۲/۴۴۲ نمبر۲۸۶۳ اور۱۰/۴۹۶ن۸۹۴۸) ابن عساکر کی تاریخ دمشق(۲۷۲،۲۷۹،۲۸۰)مصعب زبیری ت۲۳۶ کی نسب قریش ت:۲۳۶ھ ص:۵۱، ابن سعد کی الطبقات الکبریٰ۸/۴۸۳۔۴۷۴، ابن معین کی التاریخ۲/۷۳۹، ابن حبان کی الثقات ۳/۲۱۶ اورالمعرفۃ التاریخ ۳/۲۶۵، ابن اثیر کی الکامل فی التاریخ ت:۶۳۰ھ ۵/۵۱۸۔۵۲۳،۶/۲۱۶، المزیّ کی تہذیب الکمال ت:۷۴۲ھ ۳/۱۱۹۲۔۳۹۲، خلاصہ تہذیب التہذیب ۴۹۴، التذکرۃ الحمدونیۃ ۱/۴۸۲، ابن حزم کی جمہرۃ انساب العرب ص:۴۱۔ ۸۳۔
۱۱۔     حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما
آپ ؓ نے لیلیٰ یا آمنہ بنت ابومرۃ سے نکاح فرمایاتھا، یہ وزوجہ محترمہ ثقفی اموی تھیں، اس کا ذکر شیخ عباس قمی کی منتہی الآمال میں ص:۶۵۳،۶۵۴ پر ہے۔
"ومن زوجات الحسین لیلی بنت أبی مرۃ بن عروۃ بن مسعود الثقفیۃ وأمہا میمونۃ بنت أبی سفیان وہي أم علی الأکبر وعلی الأکبر ہاشمي من جہۃ ابیہ ثقفی أموي من جہۃ أمہ"۔
"حضرت حسینؓ کی بیویوں میں لیلیٰ بنت ابی مرہ بن عروۃ بن مسعود ثقفی ہیں، جن کی ماںمیمونہ بنت ابی سفیان ہیں، نیز یہ علی الاکبر کی بھی ماں ہیں جو باپ کی طرف سے ہاشمی اورماں کی طرف سے ثقفی اموی ہیں"۔
 اس کا ذکر نسب قریش میں بھی ہے۔
( ص:۵۷ فی فصل ولدالحسین وفیہ من زوجاتہ: لیلیٰ أوآمنۃ بنت معتب بن عمروبن سعد بن مسعود بن عوف بن قیس، وأمہا میمونۃ بنت أبی سفیان بن حرب بن أمیۃ")
خاندان حضرت علیؓ اورآپؓ کی پھوپھیوں کے ابناء جو عباسی ہیں، کے درمیان رشتے
۱۔      محمد جواد بن علی رضا بن موسی الکاظم
انہوں نے ام حبیب بنت مامون عباسی سے نکاح کیا ، یہ نکاح ۲۰۲ھ ماہِ صفر کے آخر میں ہواتھا، اس کاذکر شیعہ امامیہ کے مآخذ میں ہے، جیسے محمد اعلمی الحائری کی تراجم اعلام النساء ص:۲۴۹، ہاشم حسینی کی سیرۃ الأئمۃ الاثنی عشرۃ(ص:۴۰۴،۴۰۵)شیخ مفید کی الارشاد(ص:۳۲۱)وسماہا ام الفضل اورابن شہر آشوب کی المناقب(۱/۲۲۴)
۲۔     فاطمۃ بنت محمدبن علی النقی بن محمد الجواد بن علی الرضا
خلیفۂ ہارون رشید العباسی نے ان سے نکاح کیا تھا، مناقب آل ابی طالب(ص:۲/۲۲۴)
۳۔     عبیداللہ بن محمد بن عمراطرف بن علی بن ابوطالب
انہوں نے ابوجعفرمنصور کی پھوپھی سے نکاح کیا تھا، اور اس وقت آپ ۵۶سال کے تھے، نیز زینب بنت محمد باقرؒ سے بھی نکاح کیا، مآخذ شیعہ میں سے سرالسلسلۃ العلویۃ(ہامش ص:۱۲۵)ملاحظہ فرمائیے۔
۴۔     ام کلثوم بنت موسیٰ الجون بن عبداللہ محض بن حسن بن علی بن ابی طالب
انہوں نے اپنے بھائی منصور عباسی کے لڑکے سے نکاح کیا، محقق نے ابن عنبہ کی عمدۃ الطالب کے(ص:۱۳۴) کے حاشیہ پر ابوالحسن عمری کی کتاب المجدی سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:
"ولدموسیٰ بن عبداللہ الملقب بالجون، اثنی عشر ولداً منہم تسع بنات۔۔۔۔و۔۔۔۔وام کلثوم خرجت إلی ابن أخی المنصور"۔
قارئین کرام کو علوی اورعباسی خاندان کے درمیان رشتہ ازدواج کو ملاحظہ فرماناچاہئے۔
شیعہ بڑے بارہ اماموں کی مائیں کون کون تھیں؟
شیعہ کتب انساب وتاریخ کااختلاف
ضمیمہ نمبر(۱)
علماء شیعہ امامیہ کا ائمہ کے ماؤں کے اسماء کے متعلق بہت زیادہ اختلاف ہے، اورایساہی علماء وفقہاء اورعلمائے انساب کے نزدیک ہے، اوریہ بہت ہی حیرت انگیزہے، جس کی وضاحت سے میں(مؤلف)ناواقف(وقاصر)ہوں۔
یہ نقشہ ان اختلافات کی نشاندہی کرتاہے۔(۱)
 ائمہ کے نام
ان کی ماؤں کے نام جیساکہ شیعہ امامیہ کے مآخذ میں مذکور ہیں
علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابوطالب
شاہ زنان بنت یزد جردبن کسریٰ، شہربانویہ، سلافہ، سلامہ، غزالہ، برۃ، خویلد۔
مراجع
اصول کافی۱/۵۳۹ باب مولد علی بن الحسین۔نفس المہوم ص:۴۷۸،۴۷۹ منتہی الآمال۲/۹، سر السلسلۃ العلویۃ۔۳۱
محمد باقرؒبن علی بن حسین
 فاطمۃ بنت حسن بن علی بن ابوطالب، کنیت ام حسن ہے۔
مراجع  
کشف النعمۃ ۲/۳۰۴
جعفرصادق بن محمد بن علی بن حسین
فاطمہ یا ام فردہ بنت قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق اور ان کی ماں اسماء بنت عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق ہیں۔ اسی وجہ سے جعفر صادقؒ کہا کرتے تھے میری ماں نے دومرتبہ صدیق سے جنم لیا ہے۔
مراجع
 سرالسلسلۃ العلویۃ ص:۳۴، منتہی الآمال ۲/۱۶۰ کشف النعمۃ ۲/۳۱۹۔۳۴۱۔
موسی کاظم بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین
ام ولد تھیں،جن کو حمیدہ المغربیہ یا حمید البریریۃ کہا جاتا تھا۔ اور کہا گیا ہے کہ حمیدہ مصفاۃ جو کہ عجم کے معززلوگوں میں سے تھیں، بیان کیا گیا ہے کہ صادق نے فرمایا کہ حمیدہ برائیوں سے پاک تھیں، جیسے کہ سونے چاندی کا ڈلا۔
مراجع
 منتہی الآمال/۲۳۹، کشف النعمۃ ۳/۵ عمدۃ الطالب ص:۱۵۶
علی رضا بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین
 ام ولد تھیں، جن کو تکتم کہاجاتاتھا، خیزران مرسیہ اورشقراء نوبیہ بھی مذکور ہے، ان کانام اروی ہے، نجمہ وسکن، سمانۃ، ام بنین خیزران صقر ذکر کیا گیاہے۔
مراجع
 سرالسلسلۃ العلویۃ ص:۳۸ ۔ کشف النعمۃ ۳/۵۲ منتہی الآمال ۲/۳۳۴
محمد بن جواد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین
 ام ولد جن کانام خیزران تھا یا سکینتی المرسیب یا سبیکۃ تھا، عباس قمی نے فرمایاہے کہ : نوبیہ، ماریہ قبطیہ کے گھرانے سے تھیں۔
مراجع
سرالسلسلۃ العلویۃ ص:۳۸ ۔ کشف النعمۃ ۳/۱۲۸، منتہی الآمال ۲/۴۱۹۔
علی النقی بن محمد بن علی بن موسیٰ بن جعفر صادقؒ
 ام ولد تھیں، جن کانام سمانۃ المغربیۃ تھا اوراس کے علاوہ بھی کہا گیا ہے کہ ، جیساکہ کشف النعمۃ میں مذکور ہے۔
مراجع
 کشف النعمۃ ۳/۱۵۹ ۔ سر السلسلۃ العلویۃ ص:۳۹
حسن عسکری بن علی بن محمدبن علی بن موسیٰ بن جعفر صادقؒ
 ام ولد نوبیہ ہیں جن کانام ریحانہ تھا،سوسن، ماجدہ، حدیث، سلیک اور جدہ بھی کہاگیاہے۔
مراجع:۔منتہی الآمال۲/۵۱۹۔ سرالسلسلۃ العلویۃ ص:۳۹، کشف النعمۃ ۳/۱۸۸
مہدی منتظر بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمدبن علی بن حسین
ان کے نام کے متعلق کہاگیاہے کہ نرگس ہے، صِقل ہے، اور کہا گیا ہے کہ ہے، وام ولدتھیں، نباطی عاملی نے کہا ہے کہ یہ سُرمن رای میں حسن(امام منتظر)کے ساتھ ہیں۔ اورنرگس اکثر علماء کے قول کے مطابق ان کی والدہ تھیں،اور کہا گیا ہے کہ حکیمہ تھا۔ یہ بھی مذکو رہے کہ وہ مسیح کے حوارین میں سے ایک کی نسل سے رومی باندی تھیں، جس کانام شمعون بن حمون بن صفا تھا، اوران کانام ملیکہ بنت یشوعا بن قیصر ملک روم تھا، جو کہ شاہ روم تھا، ایسی ہی مختلف روایات ابن بابویہ قمی اورشیخ الطائفہ طوسی کے نزدیک ہیں، جو کہ معتبر اسانید کے ذریعہ بشیربن سلیمان نخاس نے ابوایوب کے لڑ کے سے نقل کی ہیں، جیساکہ عباس قمی نے منتہی الآمال میں ذکر کیاہے، منتہی الآمال ۲/۵۵۵۔
مراجع:۔  منتہی الآمال ۲/۵۵۹، کشف النعمۃ۳/۲۲۴۔ الارشاد ص: ۳۴۶، حق الیقین لشبر ص:۲۲۲، الصراط المستقیم لمستحق التقدیم ۲/۲۱۷۔ عمدۃ الطالب۔ص:۱۵۸
مذکورہ بالا اطلاعات، چند اور پہلوؤں پر بھی غور کی دعوت دیتی ہیں۔ توجہ کیجئے!
۱۔       ائمہ کے ماؤں کے اسماء کے متعلق اختلاف اور کسی متعین نام پر عدم یقین۔
۲۔      بوسیدہ تاویلات کے ذریعہ اسماء کے تعدد کی تاویل کااقدام۔
۳۔      قابل دیدہ طرزپر اشارات یہ کہ ائمہ کے ماؤں کی اصل عجمی ہے یا رومی اورنصرانی یا بربری یہ عربی الاصل  نہیں ہیں۔
۴۔      یعنی موسی کاظم کی والدہ ، حمیدہ مصفاۃ اشراف عجم میں سے ہیں۔
۵۔      علی زین العابدین کی والدہ شاہ زنان بنت یزد جردبن کسری فارس کے عظیم گھرانے سے ہیں۔
۶۔      علی نقی کی والدہ سمانہ، مراکش سے تعلق رکھتی تھیں۔
۷۔      حسن کی والدہ ریحانہ نوبیہ سے ہیں۔
۸۔      علی رضا شقراء کی والدہ شقراء نوبیہ سے متعلق ہیں۔
۹۔       محمدجواد کی والدہ نوبیہ سے ہیں اورماریہ قبطیہ کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔
۱۰۔     مہدی منتظر کی ماں کانسب شمعون بن حمون بن صفا جو کہ مسیح کے حوارین میں سے ایک تھا آکرختم ہوجاتا ہے وہ قیصر روم کی لڑکی تھیں۔
کیا یہ تمام عجیب وغریب نہیں ہے کہ ائمہ کی مائیں ایسے لڑکوں کی مائیں ہیں جو کہ نویبی یا قبطی رومی یا اشراف عجم میں سے ہیں۔
عربی النسل کوئی ماں نہیں پائی جاتی، سوائے فاطمۃ بنت حسن کے جو کہ محمد باقرؒ کی ماں ہیں، اور ام فروہ یا فاطمۃ بنت قاسم بن محمدبن ابوبکر صدیق، جو کہ جعفر صادقؒ کی ماں ہیں۔ غور کیجئے!
ضمیمہ نمبر(۲)
اہل بیتؓ کے لڑکوں اور لڑکیوں کے اسماء کی دلیل رضوان اللہ علیہم
(۱)      عمر اطرف بن علی بن ابوطالب                   (۲)     عمر بن حسین بن عمر اطرف بن علی بن ابوطالب
(۳)     عمر بن حسین الشہید بن علی بن ابوطالب           (۴)     عمر اشرف بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب
(۵)     عمر بن علی اصغربن عمر اشرف بن علی زین العابدین بن حسین 
(۶)     عمر بن حسن افطس بن علی اصغر بن علی زین العابدین بن حسین۔
(۷)     عمر بن حسین بن زیدبن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب   
(۸)     عمر بن موسی کاظم بن جعفر صادقؒ
(۹)     عمر بن حسن السبط بن علی بن ابوطالب             (۱۰)     عمر بن جعفربن محمد بن عمر اطرف بن علی بن ابوطالب
(۱۱)     عمربن محمدبن عمر بن علی بن حسین الشہید           (۱۲)    عمربن یحییٰ بن حسین بن زید
(۱۳)    عمر بن حسین بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب (۱۴)    ابوبکر بن علی بن ابوطالب
(۱۵)    ابوبکر بن حسین الشہید بن علی بن ابوطالب         (۱۶)    ابوبکر بن حسن السبط بن علی بن ابوطالب
(۱۷)    ابوبکر بن عبداللہ بن جعفر بن ابوطالب            (۱۸)    ابوبکر مہدی منتظر کے ناموں میں سے ایک ہے
(۱۹)     عثمان بن علی بن ابوطالب                        (۲۰)    عثمان بن عقیل بن ابوطالب
(۲۱)    عائشہ بنت موسیٰ کاظم بن جعفر                   (۲۲)    عائشہ بنت علی رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادقؒ
(۲۳)   عائشہ بنت علی ابوالحسن بن محمد جواد بن علی رضا بن موسیٰ بن جعفر صادقؒ
(۲۴)   معاویہ بن عبداللہ بن جعفر بن ابوطالب           (۲۵)   طلحہ بن حسن بن علی بن